وَاتَّقوا يَومًا لا تَجزي نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيئًا وَلا يُقبَلُ مِنها شَفاعَةٌ وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ وَلا هُم يُنصَرونَ (48:2)
(اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آئے کوئی شخص کسی کے کچھ بھی، اور قبول نہ ہو اُس کی طرف سے کوئی سفارش، اور نہ لیا جائے اس کی طرف سے بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے۔)
گزشتہ آیت سے بنی اسرائیل کی خرابیوں کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ ایک اہم ترین خرابی اس آیت ِمبارکہ میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں کہ: ’’بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں، ہم پر عذاب نہ ہوگا۔ ہمارے باپ دادا جو پیغمبر ہیں، ہمیں بخشوا لیں گے۔ سو (اس آیت میں) خدائے تعالیٰ فرماتا ہے؛ یہ خیال تمھارا غلط ہے‘‘۔ قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو اپنے افکار و اعمال کو درست کرنے کے بجائے گناہوں اور جرائم کی دلدل میں پھنستی چلی جاتی ہیں۔ ان کی پستی اس حد تک بڑھتی ہے کہ جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے مقربینِ بارگاہِ الٰہی سے اپنے نسبی تعلق کو کافی سمجھتی ہیں۔ جو نہ صرف اُن کی قومی ترقی کے لیے انتہائی بُرا ہوتا ہے، بلکہ وہ کسی بین الاقوامی کردار کے بھی قابل نہیں رہتیں۔ اس آیت ِمبارکہ میں اُس دن سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جس میں اللہ کے عذاب سے بچنے کی ممکنہ کوئی صورت کامیاب نہ ہوگی۔
وَاتَّقوا يَومًا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ تقویٰ سے مراد اللہ کا ایسا ڈر اور خوف کہ اُس کے نتیجے میں انسانیت کے لیے عدل، احسان اور رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کا نظام قائم کیا جائے، جیسا کہ دوسری جگہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے۔ (القرآن 90:16) انسانوں کی فضیلت کا مدار تقویٰ پر ہے۔
لا تَجزي نَفسٌ عَن نَفسٍ شَيئًا: مجرموں کو جب سزا دی جاتی ہے تو اُس سے بچنے کے لیے ممکنہ طور پر چار صورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کسی مجرم کو ان ممکنہ چار صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی نجات نہیں مل سکتی۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’جب کوئی کسی بلا (مصیبت) میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اُس کے رفیق اکثر یہی کیا کرتے ہیں کہ
(1) اوّل تو اس کے ادائے حق کے لازم میں کوشش کرتے ہیں۔
(2) یہ نہیں ہوسکتا تو سعیٔ سفارش سے بچانے کی تدبیر کرتے ہیں۔
(3) یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر تاوان اور فدیہ دے کر چھڑاتے ہیں۔
(4) اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو بالآخر اپنے مددگاروں کو جمع کرکے بزورِ پرخاش (مخالفانہ طاقت سے) اُس کی نجات کی فکر کرتے ہیں۔
(اس آیت میں) حق تعالیٰ نے اسی ترتیب کے موافق ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص گو کیسا ہی مقربِ خداوندی ہو، مگر کسی نافرمان ’’عدوُّ اللّٰہ‘‘ (اللہ کے دشمن) کافر کو من جملہ چاروں صورتوں کے کسی صورت سے نفع نہیں پہنچا سکتا‘‘۔
مجرم کو بچانے کی پہلی صورت یہ ہے کہ سزا بھگتنے میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان (مجرم) کے کام آئے۔ مجرم کے بجائے کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔ بنی اسرائیل کا یہ خیال کہ ہمارے گناہوں کے بدلے میں کوئی مقربِ بارگاہِ الٰہی پیغمبر ہمارے کسی کام آئے گا، قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر انسان شخصی اور ذاتی طور پر اللہ کے سامنے خود جواب دہ ہے۔ کوئی دوسرا فرد اُس کی جگہ جواب دہ نہیں ہوسکتا۔
وَلا يُقبَلُ مِنها شَفاعَةٌ: دوسری صورت یہ ہے کہ اُس کے لیے کوئی طاقت ور آدمی مجرم کو چھوڑ دینے کی سفارش کرے۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اُس کے دربار میں سفارش نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی ذاتی طور پر سفارش کرے بھی تو اللہ کے ہاں قطعی طور پر قبول نہیں۔ قوموں کی تباہی اور بربادی میں سفارشی کلچر بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شخصی ذمہ داریوں کی مسئولیت اور جواب دہی سے بچنے کے لیے سفارشوں کا سہارا لیا جاتا ہے، جو کسی قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ہر آدمی کو اپنے اعمال، افعال، افکار اور اَخلاق کا خود ذمہ دار ہونا ہے۔ جب وہ ذمہ داری سے راہِ فرار اختیارکرتا ہے تو معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ نااہل اور غیرذمہ دار حکمران ملک اور قوم کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتے۔
احادیث میں اللہ کی اجازت سے کسی کے لیے جس شفاعت کا تذکرہ آیا ہے، اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ سفارش اُسی بندے کے کسی عمل کا نتیجہ ہوگی۔ اس عمل کو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اَور کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے یہ قانون بڑی وضاحت کے ساتھ اس آیت ِمبارکہ میں بیان کردیا گیا ہے کہ بغیر کسی عمل کے کسی طرح کی بھی کوئی سفارش اور شفاعت قیامت کے دن قبول نہیں کی جائے گی۔
وَلا يُؤخَذُ مِنها عَدلٌ: تیسری صورت یہ ہے کہ مجرم کو چھڑانے کے لیے کوئی فدیہ اور تاوان بھر دیا جائے اور مجرم کو سزا سے بچا لیا جائے۔ جزا و سزا کے اُس دن میں مجرم کی طرف سے کوئی فدیہ اور تاوان بھی وصول نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو لوگ کافر ہوئے اور مر گئے کافر ہی، تو ہرگز قبول نہ ہوگا کسی ایسے (مجرم) سے زمین بھر کو سونا اور اگرچہ بدلہ دیوے اس قدر سونا‘‘۔ (القرآن 91:3) مال و دولت دے کر شخصی ذمہ داریوں سے بچنا بہت بڑی خرابی ہے۔
وَلا هُم يُنصَرونَ: چوتھی صورت یہ ہے کہ لوگوں کا ہجوم آپس میں جمع ہو کر طاقت کا استعمال کرے اور زبردستی مجرم کو چھڑا لے جائے۔ اُس دن میں ایسا ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ وہاں ہر آدمی اپنی اپنی فکر میں ہوگا۔ چناںچہ لوگ کسی طرح بھی کسی دوسرے کو چھڑانے کے لیے اُس کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
اس آیت ِمبارکہ میں تقویٰ کا نتیجہ شخصی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ جو لوگ اپنی ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال کر کام سے جان چراتے ہیں، وہ اپنی قوم کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے، چہ جائے کہ وہ کل انسانیت کے لیے رہنمائی کا کوئی کردار ادا کرپائیں۔ بنی اسرائیل اپنی ان خرابیوں کے سبب رہنمائی کے منصب کے قابل نہیں رہے۔ چناںچہ مسلمانوں پر مشتمل ایک متقی جماعت کا پیدا کرنا ضروری ہے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …