ابن خلکان اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ: ’’زمانۂ اسلام میں سب سے پہلے علمِ طب میں جو شخص مشہور ہوا، وہ خالد بن یزید بن معاویہؓ اُموی ہیں۔‘‘ علامہ خالد طب و کیمیا کے علاوہ علمِ تفسیر، حدیث اور زبان و ادب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ تاہم علمِ طب و کیمیا میں انھیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ یونانی علم و حکمت سے واقفیت حاصل کرنے کی ابتدائی خواہش انھی خالد بن یزید کے دل میں پیدا ہوئی۔ چناںچہ انھوں نے یونانی حکما و فلاسفہ کو مصر میں جمع کیا۔ علمِ کیمیا پر یونانی و قبطی تصانیف کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا۔ وہ چوںکہ خود بھی لسانیات کے ماہر تھے، اس لیے انھوں نے خود تراجم کی نگرانی کی۔ اپنی تجربہ گاہ بھی قائم کی۔ جورجی زیدان (Jurji Zaydan) جو ایک شامی النسل عیسائی فاضل تھے، ’’تاریخ تمدنِ اسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ عرب ہی تھے، جنھوں نے موجودہ فن کیمیا کی اپنے تجربات اور ذہنی قابلیتوں سے بنیاد ڈالی۔‘‘ (ج:3، ص:84) تمام مؤرخین اور محققین کا اتفاق ہے کہ علامہ خالد کی علمی و عملی و تجرباتی کوشش سے علم کیمیا کو عملی درجہ حاصل ہوا۔ ’’کتاب الاغانی‘‘ کے شیعہ مصنف لکھتے ہیں کہ: ’’خالد بن یزید بن معاویہؓ سخاوت و فصاحت میں قریش کے بڑے لوگوں میں سے تھے۔ علمِ کیمیا میں انھوں نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کر رکھا تھا کہ ساری عمر اسی میں صَرف کرڈالی اور اپنے آپ کو اس میں فنا کردیا۔‘‘
خالد بن یزید نے نہ صرف علم طب و کیمیا کو سبقاً سبقاً رومی اساتذہ سے حاصل کیا، بلکہ اس موضوع پر انھوں نے متعدد کتابیں بھی لکھیں۔ بعض اہلِ تحقیق کی رائے یہ ہے کہ جابر بن حیان‘ خالد بن یزید ہی کا شاگرد تھا، لیکن بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ امام جعفر صادقؒ نے یہ علم خالد بن یزید سے حاصل کیا اور جابر بن حیان اس فن میں امام جعفر صادقؒ کے شاگرد ہیں۔ علامہ خالد نے اپنی لیبارٹری میں بعض ایسی ایجادات کیں، جن سے عربوں کو فنِ حرب میں رومیوں پر برتری حاصل ہوئی۔ رومی فوجیں لڑائی میں کریک فائر استعمال کرتی تھیں۔ یہ ایک کیمیائی مرکب تھا، جس کی ایک پچکاری چلانے سے آگ لگ جاتی تھی۔ جس چیز پر یہ مرکب پڑتا، اس میں آگ لگ جاتی۔ علامہ خالدؒ کی لیبارٹری میں اس کا فارمولا تیار کرلیا گیا۔ اس کیمیکل مرکب کی دریافت سے مسلمان آلاتِ حرب میں اَور زیادہ مؤثر ہوگئے۔
آج ہمیں اپنے ان روشن دماغ، ذہین و فطین سائنس دان سے آگہی نہیں، بلکہ سیاسی اختلافات اور مسلکی تعصبات کی بنا پر اپنی حیات افروز تاریخ کو نہ صرف فراموش کردیا، بلکہ تاریخ نویسی کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے قابلِ فخر شخصیات کو غلط رنگ میں پیش کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ خلافت ِبنواُمیہ کی طرف ہر بُرائی منسوب کی۔ ان کے خلاف ہر طرح کا جھوٹا سچا پروپیگنڈا کیا گیا۔
Tags
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔