وَإِذِ استَسقىٰ موسىٰ لِقَومِهِ فَقُلنَا اضرِب بِعَصاكَ الحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَت مِنهُ اثنَتا عَشرَةَ عَينًا ۖ قَد عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشرَبَهُم ۖ كُلوا وَاشرَبوا مِن رِزقِ اللَّهِ وَلا تَعثَوا فِي الأَرضِ مُفسِدينَ( -2البقرہ: 60)
(اور جب پانی مانگا موسیٰ نے اپنی قوم کے واسطے تو ہم نے کہا: مار اپنے عصا کو پتھر پر۔ سو بہہ نکلے اس سے بارہ چشمے۔ پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ۔ کھاؤ اور پیو اللہ کی روزی او رنہ پھرو ملک میں فساد مچاتے)۔
گزشتہ آیات سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کے بیان کا سلسلہ جاری ہے۔ چناںچہ پہلے فرعون کی غلامی سے آزادی، تورات کا نزول، شخصی تربیت کے اُمور، صحرائی زندگی میں مَن و سلویٰ ایسے انعامات کا ظہور، صحرا سے نکل کر مکمل شہری زندگی سے پہلے بستی اور قریہ میں نزول اور شہری زندگی کے ابتدائی درجے سے متعلق اُمور بیان کیے گئے تھے۔ نیز ہر مرحلے پر بنی اسرائیل کے اکثر لوگوں کی طرف سے ان قوانین کی خلاف ورزی اور مکمل طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرماں برداری سے انکار کی نوعیت واضح کی گئی۔
اس آیت سے ’’قریہ‘‘ اور بستی کی اجتماعی زندگی کا ایک بنیادی اور اہم قانون بیان کیا جا رہا ہے۔ اس قانون میں یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ مشترکہ چیزوں، خاص طور پر کھانے پینے کی اشیا میں منصفانہ تقسیم کا نظام بنانا ضروری ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنا، سوسائٹی میں فساد مچانا ہے۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے یہ بنیادی ضابطہ بیان کیا گیا کہ:
وَإِذِ استَسقىٰ موسىٰ لِقَومِهِ:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ’’قریہ‘‘ یعنی بستی کی اجتماعیت سے نکال کر ’’مصر‘‘ یعنی شہری زندگی کی اجتماعیت کی طرف لے جا رہے تھے تو اُن کا ایک صحرا اور جنگل سے گزر ہوا۔ اس موقع پر انھیں پانی کی ضرورت اور حاجت پیش آتی ہے۔ اس پر انھوں نے مشترکہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا۔
فَقُلنَا اضرِب بِعَصاكَ الحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَت مِنهُ اثنَتا عَشرَةَ عَينًا ۖ:اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ: ’’اپنی لاٹھی پتھر پر ماریں!‘‘ اس پر انھوں نے اللہ کے حکم سے ایک بڑے پتھر پر لاٹھی ماری۔ اس طرح اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے پھوٹے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’پتھر سے بارہ چشموں کا نکلنا‘ یہ قصہ بھی اُسی جنگل کا ہے، پانی نہ ملا تو ایک پتھر پر عصا مارنے سے بارہ چشمے نکلے اور بنی اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ ۔۔۔ جو کوتاہ نظر (انبیا علیہم السلام کے) ان معجزات کا انکار کرتے ہیں: ’’نیستند آدم، غلافِ آدم اند‘‘ (وہ آدمی نہیں ہیں، بلکہ اُن پر آدمیت کا غلاف چڑھا ہے) دیکھو! مقناطیس تو لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس پتھر نے پانی کھینچ لیا تو انکار کی کیا وجہ ہے؟‘‘
قَد عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشرَبَهُم ۖ:پانی کے چشمے پھوٹے، ہر ایک قبیلے اور قوم نے اپنے پانی کے چشمے کو پہچان لیا اور اپنی ضرورت کے مطابق استعمال شروع کردیا۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’(بنی اسرائیل کی) کسی قوم میں آدمی زیادہ، کسی میں کم، ہر قوم (کی تعداد) کے موافق ایک چشمہ تھا۔ اور (ہر قبیلے کے لیے) وجہِ شناخت بھی یہی (قوم کے افراد کی تعداد اور چشمے کی ساخت میں) موافقت (مطابقت ہونا) تھی۔ یا یہ مقرر کر رکھا تھا کہ پتھر کی فلاں جہت (کی) فلاں جانب سے جو چشمہ نکلے گا، فلاں قوم کا ہوگا‘‘۔ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’قبیلوں کے افراد کی تعداد کے مطابق کوئی چشمہ بڑا تھا، کوئی چھوٹا اور کوئی درمیانے درجے کا۔ ہر ایک قبیلے نے بغیر کسی جھگڑے کے اپنے افراد کی تعداد کے مطابق ان چشموں میں سے ایک ایک چشمہ لے لیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مشترکہ پانی کی تقسیم کا عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کردیا‘‘۔ اس سے بنی اسرائیل کو یہ تعلیم دی گئی کہ وہ اجتماعیت کے مشترکہ اُمور میں عدل و انصاف کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ اسی تناظر میں انھیں کہا گیا:
كُلوا وَاشرَبوا مِن رِزقِ اللَّهِ:ہر وہ چیز جو زمین میں صاف ستھری اور پاکیزہ صورت میں موجود ہے، اور انسان خوش دلی کے ساتھ انھیں استعمال کرتا ہے تو اُسے اللہ کی طرف سے دیا ہوا ’’رزق‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُس کا کھانا اور پینا حلال ہے۔ اس رزق کے صحیح استعمال کی صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ کہ ان چیزوں کا استعمال عدل و انصاف کی بنیاد پر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا رزق تمام انسانیت کے لیے عام کیا ہے۔ تو ایسی مشترکہ چیزوں میں عدل و انصاف کی بنیاد پر تقسیم ضروری ہے۔
وَلا تَعثَوا فِي الأَرضِ مُفسِدينَ:کسی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق اور ملکی قومی وسائل اُس قوم کے تمام افراد کے لیے ہیں۔ کسی ضرورت مند کو اُس رزق سے استفادہ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کھانے پینے کی اشیا ہر ایک محتاج تک پہنچنی چاہئیں۔ مشترکہ قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونا ضروری ہے۔ چناںچہ اجتماعی نظام قائم کرتے ہوئے ایسی مشترکہ چیزوں کی تقسیم میں ناانصافی برتنا اور ظلم کرنا ’’فساد‘‘ کہلاتا ہے۔ کسی اجتماعی نظام میں اس سے بڑھ کر اَور فساد نہیں ہوسکتا۔ ہر سطح کی اجتماعیت تقاضا کرتی ہے کہ اُس میں بسنے والے ہر محتاج کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور اُن کے لیے وسائل کو روک کر زمین میں فساد نہ مچایا جائے۔
اس آیت میں شہری زندگی کی اجتماعیت کو درست خطوط پر استوار رکھنے کے لیے مشترکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا بڑا بنیادی قانون واضح کیا جا رہا ہے۔ یہ بنی اسرائیل پر ایک بہت بڑا اِنعام تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیشِ نظر ’’مصر‘‘ یعنی قومی سطح کے شہری نظام میں داخل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کی ان بنیادی قوانین پر تعلیم و تربیت کرنا تھی۔ اتنے بڑے انعام کے باوجود بنی اسرائیل کے لوگ ان قوانین کی پابندی نہ کرکے اور فساد مچا کر عذابِ الٰہی کے مستحق ہوئے۔ مسلمانوں کے لیے یہ عبرت ہے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …