لبنان بحیرۂ روم کی مشرقی پٹی پر شام اور اسرائیل کے ساتھ واقع ہے۔ یہ ایک چھوٹا ملک ہے۔ اس کی آبادی ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 55 فی صد مسلمان ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا کے کئی ممالک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کچھ ایسا ہی لبنان کے ساتھ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہوچکا ہے۔ یہ وہی لبنان ہے، جس کے بینک اور سیاحت پوری دنیا میں مقبول ہیں۔ ہوا یوں کہ فرانس سے 1943ء میں آزادی کے بعد اس ملک نے ترقی کی اور 50ء اور 60ء کی دہائی کے دوران بینکاری اور تجارتی بندرگاہ کے حوالے سے اپنی معیشت کو استوار کیا، لیکن 1975ء تا 1990ء کی خانہ جنگی نے اس کی معیشت کو خاک میں ملا دیا۔ بہ ظاہر یہ خانہ جنگی شیعہ سنی اور عیسائی رنگ لیے ہوئے تھی، لیکن اس کا آغاز فلسطینیوں کی ہجرت اور اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے ہوا۔ بالآخر اس جنگ نے خطے میں معیشت کا توازن بدل کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ تقریباً دو لاکھ افراد مارے گئے اور دس لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس کے بعد وہی ہوا، جو دنیا میں اس قسم کے سانحے کے بعد ہوتا ہے۔ دولت مند ممالک کی مہارت اور کاریگری بروئے کار لائی گئی اور لبنان پر سامراجی مہربانی کے انبار لگا دیے گئے۔ چناںچہ معیشت کو مزید آزاد کیا گیا۔ تعمیرِ نو کے لیے خوب امداد دی گئی، جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین پیش پیش رہے۔ سیاحتی شعبے میں جوئے اور قحبہ خانوں کو اتنا رواج دیا کہ سیاحتی حوالے سے عرب ممالک کے لیے لبنان‘ یورپ اور امریکا کا نعم البدل قرار پایا۔ بینکاری میں بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے سود پر منافع بخش سکیمیں متعارف کروائیں اور پڑھے لکھے لبنانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو مشرقِ وسطیٰ اور مغرب میں روزگار کے لیے آسان شرائط پر ویزے فراہم کیے گئے۔ 1990ء سے 2015ء تک معمولی اُتار چڑھاؤ کے ساتھ لبنانی معیشت تیز رفتاری سے پھلی پھولی، لیکن اسی طرح جیسے پاکستانی معیشت پروان چڑھی، یعنی قرضے لیے گئے اور اُن سے پُر تعیش زندگی کے لیے درآمدات کی گئیں۔ ایک وقت آیا کہ درآمدات 23 ارب ڈالر اور برآمدات محض 2.3 ارب ڈالر ہوگئیں۔ ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضہ 80 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ اب لبنان کا گزارا سیاحت اور بیرونِ ملک مقیم لبنانیوں کی ترسیلاتِ زر پر تھا کہ اچانک کرونا کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ دو ذرائع بھی معدوم ہوگئے اور پورا معاشی ڈھانچہ اس وقت دھڑام سے نیچے آگرا جب سب کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔
اب حال یہ ہے کہ پچیس ہزار مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں کمزور المعیشت لوگ جن میں فلسطینی اور شامی مہاجرین کی ایک کثیر تعداد ہے، کے بھوک سے مرنے کے خدشات نے جنم لے لیا ہے۔ سعد حریری کی حکومت معزول ہوچکی ہے اور لبنان بین الاقوامی ادائیگیوں میں دیوالیہ ہوچکا ہے۔ شہری انتظام، بجلی، ہسپتال وغیرہ غیرفعال ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی اُٹھان پر غور کریں تو اس کا رُخ بھی کچھ لبنان جیسا ہی ہے۔ چناںچہ گلوبلائزیشن، برآمدی معیشت، قرضوں کی بنیاد پر ترقیاتی کام اور امداد دراصل ایسا معاشی ماڈل ہے، جو قوموں کو بالآخر تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔