بانیٔ پاکستان محمد علی جناح مرحوم سے یہ منسوب ہے کہ اُن کی جیب میں سارے سکے کھوٹے تھے۔ یہ انھیں کا کمال تھا یا جماعتی عمل نہ ہونے کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اُن تمام کھوٹے سِکّوں کو چلا کر دکھایا، لیکن ہوا یوں کہ پاکستان میں کھوٹے سکے چلنے کا سلسلہ کچھ یوں شروع ہوا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آج ہمارا تباہ شدہ انتظامی اور معاشی ڈھانچہ دراصل اُن اَن گنت کھوٹے سکوں کے تسلسل کی ایک شکل ہے، جو ہمیں ہر لحظہ بحرانوں میں مبتلا رکھتی ہے۔ آٹا، چینی، تیل، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور گیس ایسی انسانی ضروریات ہیں، جن کی فراہمی پاکستان میں سال کے دوران کم از کم ایک دفعہ بحرانی شکل ضرور اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ صحت اور خوراک سے متعلق اشیا کی رسد کب بحرانی صورت اختیار کرجائے، کہنا ممکن نہیں۔ ہمارے مقتدر طبقے کی طاقت کا محور ہی ان بنیادی انسانی ضرورتوں پر کنٹرول اور اجارہ داری سے عبارت ہے۔ چناںچہ ہم نے دیکھا کہ بہ ظاہر کوشش کے باوجود حکومت چینی اور آٹے کے بحران سے نجات حاصل نہیں کرسکی۔ گویا کھوٹے سکے وہ نتائج دے رہے ہیں، جن کی اُن سے توقع تھی۔ ایسا ہی چند ماہ پہلے تیل کی رسد کے معاملے پر ہوا، جہاں عالمی منڈی میں تیل کی انتہائی کم سطح پر آجانے والی قیمتوں کا فائدہ نہ صرف عوام تک نہیں پہنچ سکا، بلکہ اس فائدے سے حکومت بھی محروم رہی۔ نتیجہ تیل کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی صورت میں نکلا۔ اس ماحول میں حکومت کی جانب سے نتیجے سے عاری نعرے بازی بھی شدت اختیار کرتی گئی۔
موجودہ حکومت نے بے بسی کے دوسالہ تجربے کے بعد بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کی حکمتِ عملی کچھ یوں وضع کی ہے کہ وزیراعظم نے خود میڈیا پر آکر یہ اعلان کردیا ہے کہ اگلا بحران گیس کا ہوگا۔ کمال سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیا کہ آمدہ سردیوں میں آنے والا بحران تو اس بحران کے سامنے کچھ بھی نہیں، جو اگلے سال آنے والا ہے۔ بڑی مہربانی وزیر اعظم صاحب کی، جنھوں نے سچ فرمایا، ورنہ تو پہلی حکومتیں اس طرح کی صاف گوئی سے کوسوں دور تھیں۔ یہاں بھی کھوٹے سکے کارفرما ہیں۔ وزیراعظم کو مسائل کا حل سمجھانے کے بجائے بتایا جارہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ تو ایسے حقائق ہیں، جن سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ بحرانوں کا کیلنڈر سب کو روز ِروشن کی طرح واضح ہے۔ چناںچہ سردیوں میں گیس، سردیوں سے قبل آٹے، گرمیوں میں بجلی، برسات سے قبل پانی اور برسات میں چینی کے بحرانوں نے تو آنا ہی ہے۔ ان سب کے علاوہ سال میں ایک دفعہ ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال اور دیگر بحرانوں کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ شاید اب وزیراعظم صاحب اور ان کے چاہنے والوں کو جماعت سازی اور جماعتی بنیادوں پر جدوجہد کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہو۔ کیوںکہ کھوٹے سکے مل تو آسانی سے جاتے ہیں، لیکن ان سے معیشت نہیں چلتی۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔