خلافتِ بنو عباس کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ اور خلافتِ بنواُمیہ کی طرح خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ابتدا میں اسلام اور عربی رنگ غالب تھا، لیکن فتنوں کے ظہور اور متوکل علی اللہ کے قتل سے پہلے تک مملکت کا نظام اور نفاذ سراسر اِسلامی تھا۔ اسلامی قوانین کا اجرا و نفاذ، عدل و قضا کا قیام، امن و امان کی بحالی، ذِمیوں اور غیرمسلموں کے حقوق کی حفاظت، اسلام اور مسلمانوں کے حقوق اور عزت و ناموس کی نگہداشت، خصوصاً علومِ دینی و دُنیوی کی ترویج‘ مملکتِ عباسیہ کے تمام صوبوں اور علاقوں میں نمایاں تھے۔
امام شمس الدین ذہبیؒ نے خلافتِ عباسیہ کے ابتدائی دور کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: ’’اس زمانے میں اسلام اور مسلمان عزت و احترام کی اقدار سے پوری طرح مالا مال تھے۔ علم کی کثرت و تازگی تھی۔ ہر طرف جہاد کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ سنتوں کا رواج تھا۔ بدعات سرنگوں تھیں۔ حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ عبادت گزار اور زاہدوں کی کثرت تھی۔ لوگ امن و امان اور خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ مغربِ اقصیٰ (مراکش) اور اندلس سے لے کر ہندوستان و حبشہ تک اسلام کی شان و شوکت کے مظاہر عام تھے۔ (تذکرۃُ الحُفّاظ، ج: 1، ص:224)
امام ذہبیؒ کے الفاظ اس دور کے حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں کہ خلافتِ عباسیہ کا دور بنواُمیہ کی طرح اسلام کے حق میں کس قدر پُر بہار اور پُر شکوہ تھا، ہر طرف انسانی قدریں پوری تابانی و درخشانی کے ساتھ روشن و جلوہ گر تھیں۔ اسلامی قلم رَو کے تمام خطے اس کی آسائشوں اور برکتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ نظامِ حکومت عادلانہ تھا، سماجی و معاشی اور سیاسی تمام شعبوں میں عدل و انصاف کی کار فرمائی تھی۔
خصوصاً علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے دورِ بنو عباس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان سے پہلے خلافتِ راشدہ اور خلافتِ بنواُمیہ کے زمانے میں زیادہ تر توجہ فتوحات اور سلطنت کے انتظامی اُمور کی طرف تھی، لیکن خلافتِ عباسیہ میں خلفا کی توجہ جہاں سلطنت کے نظامِ عدل کی طرف تھی، وہاں علم و ادب خصوصاً سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت کی طرف بہت زیادہ تھی۔ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دورِ خلافت اس کی نمایاں مثال ہے (جس پر ہم آئندہ شماروں میں بات کریں گے)۔
اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ علم و ادب کی ترقی کا آغاز دورِ بنواُمیہ میں ہوا اور اس کا نقطۂ عروج خلافتِ عباسیہ میں ہوا۔ علم و ادب کی وسعت اور انسانی اقدار کی آفاقیت و ہمہ گیری خلافتِ بنو عباس کا امتیاز و خصوصیت ٹھہری۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ بیان کرتے ہیں کہ: ’’اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ عباسیوں نے ایرانیوں اور عجمیوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے اسلام کے بین الاقوامی غلبے کے لیے عالمی نظام بنایا۔ چناں چہ اس دور میں عرب اور غیرعرب مسلمان مل کر حکومتیں قائم کرتے رہے‘‘۔ (کتاب شعور و آگہی)
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …