حکومت آمدہ سال 136 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق تقریباً 90 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے اور باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرضوںاور امداد پر مشتمل ہوگی۔ گزشتہ سالوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی 39.5 کھرب روپے ہوگی، جس میں 34.4 کھرب ملکی بینکوں اور مالیاتی اداروں کا ہے۔ اس کے علاوہ 41 کھرب صوبوں کو دے دیا جائے گا۔ 15.2 کھرب روپے دفاع کو دے دیا جائے تو ملکی آمدنی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کا خرچ 46 کھرب روپے قرض لے کر کیا جائے گا، جس میں قابلِ ذکر اخراجات میں انتظامیہ 19.5 کھرب، ترقیاتی اخراجات 8 کھرب، پنشن5.3 کھرب، سبسڈی 7 کھرب، مقامی امن و امان 2 کھرب، کرونا ویکسین 0.1 کھرب، تعلیم 0.9 کھرب اور صحت 0.19 کھرب شامل ہے۔
بجٹ کی دستاویز کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ ایک خانہ پُری دستاویز ہے۔ ابتدائیے کو دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ملکی ترقی اور غریب کے غم میں گھلے جارہے ہیں اور اس حوالے سے کچھ خاص کرنے جارہے ہیں، لیکن اعداد و شمار پر جائیں تو وہی پرانی تباہی۔
IMFاور حکومت کی آنکھ مچولی گزشتہ دو سالوں سے جاری تھی۔ بالآخر اس کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس خطرناک ماحول میں جب کہ ملک پاکستان کا ڈیفالٹ قریب ہی نظر آرہا ہے‘ عوام دُشمن فیصلوں کے باوجود ہماری مقتدرہ کا اعتماد اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ انھوں نےIMFکو ہی اوڑھنابچھونا بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہIMFبہادر نے بجٹ تقریر کے بعد ہی اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا۔ چناں چہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور ان میں مزید اضافے کے حوالے سے بجٹ میں پیش بندی، جیسے پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی جو ایک قسم کا ٹیکس ہے، اس کی مد میں 750 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ گویا پیٹرول کو 300 روپے لیٹر سے زیادہ لے کر جانے کا ارادہ ہے۔ اس سب کا نتیجہ مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت میں سست روی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ لیکن اس ماحول میں بھی بھائی لوگوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے ہاتھوں کی خارش کا سامان کرلیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہوگا یا ٹوٹے گا، تو نئے انتظام میں بھی تو انھوں نے ہی کام کرنا ہے، تب کی تب دیکھ لیں گے۔ لیکن عوام کا کیا بنے گا؟ اس کا خیال کسے؟ 700 ارب روپے کی سبسڈی میں 21 ارب روپے کھاد کے شعبے کو اور 570 ارب روپے بجلی کے شعبے کو دیے جارہے ہیں اور عوام کو یہ اَصناف پہلے سے زیادہ مہنگے داموں بیچنے کی تیاری ہے۔ معلوم نہیں یہ سبسڈی کس مرض کی دوا ہے۔ یوں ہی 46 کھرب روپے گرانٹس میں مختص کیے گئے ہیں، جس کا عموماً 20 فی صد ہی عوام تک پہنچتا ہے۔
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاشی پھیلاؤ کا بجٹ
آمدہ سال حکومت 131 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق قریباً 79 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے۔ باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرض…
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …