یوکرین کے بحران پر دو روزہ مذاکرات 5 تا 6؍ اگست 2023ء بروز ہفتہ اتوار کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوئے۔ جہاں شرکا نے امن کے لیے مشترکہ بنیاد بنانے کے لیے بین الاقوامی کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔ سعودی وزیرِ مملکت اور قومی سلامتی کے مشیر مصدق بن محمد العیبان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں چین اور اقوامِ متحدہ سمیت 40 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے سیکیورٹی مشیروں اور نمائندوں نے شرکت کی۔ یوکرین کے موجودہ صدر زیلنسکی نے اپنے امن فارمولے کا اعلان نومبر 2022ء میں 20 بڑی معیشتوں کے گروپ کے دو روزہ سربراہی اجلاس منعقدہ نوسا، دعا ،بالی، انڈونیشیا(Nusa Dua, Bali, Indonesia)میں 15 تا 16؍ نومبر 2022ء میں کیا تھا۔ پلان میں مطالبہ دس نکات کی شکل میں کیا گیا تھا:
1۔ تابکاری اور نیوکلیئر سیفٹی: یوکرین میں یورپ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ زیپو ریزیا(Zaporizhzhia)کے ارد گرد حفاظت کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے ، جو اَب روس کے زیرِ قبضہ ہے۔2۔ خوراک کی حفاظت: بہ شمول یوکرین دنیا کے غریب ترین ممالک کو اناج کی برآمدات کی حفاظت کو یقینی بنانا۔ 3۔ توانائی کی حفاظت: روسی توانائی کے وسائل پر قیمت کی پابندیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرین کو اس کے پاور انفراسٹرکچر کو بحال کرنے میں مدد کرنا، جس میں سے نصف کو روسی حملوں سے نقصان پہنچا ہے۔ 4۔ تمام قیدیوں اور جلاوطن افراد کی رہائی: بہ شمول جنگی قیدی اور روس بھیجے گئے بچے شامل ہیں۔ 5۔ یوکرین کی علاقائی سا لمیت کی بحالی: اور روس نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس کی تصدیق کی، جس کے بارے میں زیلنسکی نے کہا کہ ’’مذاکرات پر منحصر نہیں ہے‘‘۔6۔ روسی فوجیوں کا انخلا اور دشمنی کا خاتمہ: روس کے ساتھ یوکرین کی ریاستی سرحدوں کی بحالی۔ 7۔ انصاف: جس میں روسی جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹریبونل کا قیام بھی شامل ہے۔8۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام: ماحولیات کے تحفظ کو بحال کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت کے ساتھ پانی کی صفائی کی سہولیات فراہم کرنا۔9۔ تنازعات میں اضافے کی روک تھام اور یورو - اٹلانٹک خلا میں حفاظتی ڈھانچے کی تعمیر: بہ شمول یوکرین کے لیے ضمانتیں۔ 10۔ جنگ کے خاتمے کی تصدیق: جس میں شامل فریقین کی دستخط شدہ دستاویز بھی شامل ہے۔
کانفرنس کا انعقاد کرکے امریکا نے کوشش کی کہ سعودی عرب جو امریکی اثر و رسوخ سے نکل کر خطے کی طاقتوں کے ساتھ مل کر مستقبل کے فیصلے کر نے کی طرف پیش قدمی کرنے لگا ہے، اس کے گرد دائرہ تنگ کیا جائے۔ اسے اس کردار سے روکا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں اتنی تعداد میں نمائندوں کو جمع کرکے اپنی سیاسی قوت کا اظہار کیا ہے۔
یوکرینی صدر نے تنازعے کی بنیادی وجہ کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ حال آں کہ نیٹو جانتا ہے کہ جنگ کیوں شروع ہوئی؟ یوکرینی صدر کے پیشِ نظر یہ بات رہنی چاہیے تھی۔ یہ جتھہ یوکرین کو جو انتہائی مہنگے جنگی آلات فراہم کررہا ہے، ا س کا اس کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
یو کرینی صدر کا فارمولا جس سیاسی سوچ کا مظہر دکھائی دیتا ہے، وہ نہ تو جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے اور نہ ہی تنازعہ ختم کرنے کا کسی قسم کا کوئی عندیہ ظاہر کر رہی ہے۔ منصوبے میں بعض مطالبا ت جنونی قسم کے ہیں۔ گویا جنگ ہار کر بھی جیتنے کی معصومانہ خواہش کی گئی ہے۔ روس نے یوکرین کے علاقوں کو جس طرح ساتھ ملایا ہے، وہ ان کو کسی قیمت پر واپس نہیں کرے گا۔ نیٹو نے اپنے تمام وسائل جس طرح جنگ میں جھونکے تھے، اس کا مطلب تو روس کو شکست سے دوچار کرنا تھا، لیکن جنگ روس جیت رہا ہے۔ لہٰذا فیصلے جیتنے والے کی مرضی سے ہوتے ہیں، ہارنے والے کی تمناؤں اور خواہشات کے مطابق نہیں ہوتے۔ جنگ بندی کا مطالبہ روس کی طرف سے نہیں آیا۔ جو کیمپ مطالبہ کررہا ہے، اسے پیچھے ہٹنا ہے اور اپنی جان بخشی کروانا ہے۔
ہارنے والوں کے غرور اور تکبر کی حالت یہ ہے کہ افریقا کا جو گروپ امن منصوبہ لے کر آیا تھا، اسے جس طرح بے وقعت کرکے واپس بھیجا تھا، وہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا۔ لہٰذاجس قسم کا منصوبہ پیش ہوا ہے، اس پر مِن و عَن عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ روس نے جو فتوحات اور کامیابیا ں سمیٹی ہیں، وہ ان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ان کامیابیوں میں یوکرینی فوجوں اور مغربی طاقتوں کا بھی عمل دخل اور فوجی کردار شامل ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔
یوکرینی صدر نے جو اپنا 10نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجوں کا انخلا اور یوکرینی سرحدوں کی بحالی کو یقینی بنانے اور روس پر جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ان نکات پر جدہ کانفرنس میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن شریک نمائندوں میں آلہ کار ممالک کے علاوہ مخا لف فریق میں سے کسی نے حمایت نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ زیلنسکی کا کہناتھا کہ یہ کانفرنس کامیا ب ہوئی ہے اور آئندہ سربراہان کو منصوبے میں شریک کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ جب کہ روس نہ تو خود شریک ہو ا اور نہ ہی اس کے کسی حمایتی نے ان نکات کی حمایت کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اب یورپ میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ یوکرین میں کون سے افراد کے نام یوکرینی صدر کے متبادل کے طور پر موزوں ترین ہوں گے؟ یورپ کا کہنا ہے کہ یوکرین کو دیے گئے ہتھیاروں کو روس نے تباہ و برباد کردیا ہے۔ امریکا جنگ ہار رہا ہے۔ زیلنسکی کے غائب ہونے کے نتیجے میں کو ن اس کی جگہ لے گا؟ اگر کوئی بھی جگہ لیتا ہے تو یہ روس کی فتح ہے ،لیکن زیلنسکی کی جگہ لینے والا امریکی نہیں ہونا چاہے۔ کیوں کہ اس سے جنگ ختم نہیں ہوگی، بلکہ مزید سازشیں جاری رہنے سے خطہ مستقل جنگ کی آماج گاہ بنا رہے گا۔
Tags
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
Asian Powers and Afghanistan of Future
Asian Powers and Afghanistan of the Future Mirza Muhammad Ramzan, Islamabad. According to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan, "During the Mughal Empire…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…