

(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان)
چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگست 2022ء کو چوروں کی طرح داخل ہوئی تھی۔ نینسی پیلوسی کا طیارہ ائیرپورٹ پر داخل ہونے سے قبل ہی ائیرپورٹ کی تمام لائٹس بند کردی گئیں اور فوج کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔ تائیوان حکومت کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ طیارے کے لینڈ کرنے کے بعد بھی کافی دیر تک یہ لائٹس بند رہیں۔ دوسری طرف چینی صدر شی جن پنگ نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ ’’وہ آگ سے کھیلنا بند کرے، ورنہ وہ جل کر راکھ ہوجائے گا‘‘۔ نینسی پیلوسی کے حالیہ دورے سے پہلے بھی امریکا نے اس کے دورے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد چین نے ایک خطرناک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں انتہائی تباہ کن میزائلوں کا استعمال کرکے دکھایا گیا تھا۔ اور امریکا کو دھمکی دی تھی کہ: ’’اگر تم نے تائیوان میں اُترنے کی کوشش کی تو تمھارے تمام بحری بیڑے تباہ کردیے جائیں گے‘‘۔ جس کے بعد نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ ملتوی کردیا تھا۔ آج ان تمام تر دھمکیوں کے باوجود نینسی پیلوسی تائیوان اُترنے کے بعد اعلان کرتی ہے کہ: ’’امریکا کبھی بھی تائیوان کو تنہا نہیں چھوڑے گا‘‘۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 1969ء کے انتخابات سے قبل ایک مقالہ لکھ کر اخبارات میں شائع کروایاتھا، جس میں چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ صدر منتخب ہوا تو اس نے اس منصوبے پر انتہائی ڈرامائی انداز سے عمل درآمد شروع کیا۔ اس منصوبے میں پاکستان نے پُل کا کردارا دا کیا تھا۔ 70ء کی دہائی میں سوویت یونین اور چین کے درمیان پیدا ہونے والی نظریاتی اور تزویراتی خلیج کا فائدہ اُٹھانے کے لیے امریکا نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے عمل کی شروعات کیں۔ 1972ء میں صدر رچرڈ نکسن نے دورے کے دوران چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنے دو جنگی بحری جہاز آبنائے فارموسا (تائیوان کا پرانا نام) سے ہٹا رہا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مصنوعات خریدنے کی پابندیاں ہٹانے سے لے کر دیگر سرگرمیوں کے آغاز کے بھی عندیے دیے گئے۔ اسے عملی شکل دینے کے لیے درجِ ذیل معاہدات وجود میں آئے: 1۔ ون چائنہ پالیسی، 2۔ تائیوان تعلقات ایکٹ، 3۔ امریکا چین تین ملاقاتیں، 4۔ امریکا کی تائیوان کو چھ یقین دہانیاں۔
’ایک چین پالیسی‘ یا ’ایک چین حکمتِ عملی‘: اس پالیسی کے تحت چین کو ایک واحد ملک تسلیم کیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دو حکومتیں؛ ’عوامی جمہوریۂ چین‘ اور ’جمہوریۂ چین‘ یعنی تائیوان حکومت کا ذکر ہوگا تو ’جمہوریۂ چین‘ کہلائے گا۔ یہ دونوں چین کے سرکاری نام ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک ’ایک چین پالیسی‘ پر عمل پیرا ہیں۔ بیجنگ کا مؤقف ہے کہ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے اور ’عوامی جمہوریۂ چین‘ واحد قانونی حکومت ہے۔ دوسری طرف امریکا ’ون چائنہ‘ اصول کو مانتا ضرور ہے، لیکن آج مکمل طور پر اسے تسلیم نہیں کررہا اور نہ ہی سرکاری طور پر تائیوان کے مسئلے پر اپنی حیثیت کبھی واضح کرتا ہے۔
امریکا میں صدر کے بعد دوسرا بڑا عہدہ نائب صدر اور اس کے بعد کانگریس کے سپیکر کا ہوتاہے۔ 1997ء کے بعد اس جزیرے کا سفر کرنے والی نینسی پیلوسی امریکا کی پہلی اعلیٰ ترین عہدے دار ہے۔ اس سے پہلے اس نے 1989ء کے قتلِ عام بیجنگ میں تیانن من سکوائر کے متأثرین کی یاد منانے کے لیے چینی شہری کے مجسمے واشنگٹن میں چینی منحرفین کے ہمراہ 2019ء میں تقریبِ رونمائی میں شرکت کی تھی۔ اس کا پروگرام تائیوان کے دورے کا تھا، جو کورونا کے باعث ملتوی کردیا گیا۔ وہ ماضی کے تمام معاہدات سے پہلو تہی اور رُوگردانی کرتا نظر آرہا ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ نے نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے سبب امریکی سفیر کو بہ طورِ احتجاج بیجنگ میں طلب کرکے اسے وارننگ جاری کی ہے۔ وزیرِ خارجہ نے اسے ’’شیطانی نوعیت کا دورہ‘‘ قرار دے کر اس کے سنگین نتائج سے خبر دا ر کیا ہے اور کہا کہ چین خاموش نہیں بیٹھے گا۔ روس نے بھی اس سلسلے میں چین کی حمایت کی ہے اور نینسی پیلوسی کے دورے کو واضح اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ روس نے مزید کہا ہے کہ چین کو اپنی خود مختاری کے تحفظ میں کاروائی کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ چین نے اپنے دفاعی نظام کے حوالے سے ایسے میزائل نصب کردیے ہیں، جن کی رینج 12 سے 15 ہزار کلو میٹرتک مار کر نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے روس کے ایس 400 میزائل سسٹم سے ملتا جلتا اپنا جدید اور طاقت ور دفا عی نظام بھی نصب کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ جنگی مشقیں 15؍ اگست تک جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایشیا پیسفک میں واقع امریکی فوجی تنصیبات کے گرد اپنے جنگی بحری بیڑے نصب کردیے ہیں۔
امریکا کے غلبے کا سب سے بڑا پتھر یورپ کا فوجی اتحاد ’’نیٹو‘‘ ہے۔ روس نے یوکرین میں حالیہ اقدامات کے ذریعے امریکا کے غلبے کی حکمتِ عملی کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس کے سارے اقدامات، جن میں فوجی اور اقتصادی پابندیاں شامل تھیں، بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔ روسی اقدامی حکمتِ عملی نے اس پتھر کو پہلے درجے میں سِرکنے پر مجبور کیا، پھر تباہ کن، کاری اور مؤثر ضربوں کے ذریعے پتھر کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے۔ ان حالات میں روس کا مقابلہ کرنا نہ صرف مشکل بلکہ دھیرے دھیرے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا امریکا ایک ایسا نیا محاذ کھولنا چاہتا ہے، جہاں مقابلہ نہ صرف آسان ہو، بلکہ جیتنے کے امکانات بھی روشن ہوں۔ امریکا کی یہی خوش فہمی اسے دنیا بھر سے اپنی ساری تنصیبات لپیٹنے پر مجبور کردے گی۔ امریکی تاریخ سے واضح طور پر عیاں ہوتاہے کہ اس کے تمام معاہدات محض دفع الوقتی ہوتے ہیں۔ ان کی پاسداری کرنا امریکا کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ کیے ہوئے معاہدات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
Tags

Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
امریکی صدر کا پُر ملا ل ا نتقالِ اقتدار
چینی نیوز ایجنسی کی 7؍ جنوری2021ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’کیپٹل ہل‘ میں ہونے والے تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’…
ایشیائی بالا دستی کے تقاضے
[میانمار میں 2021ء کا فوجی انقلاب] یورپ اور مغربی دنیا کے غلبے کے عہد نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہ دولت انسانی زندگی میں بے پناہ سہولتیں تو پیدا کیں، لیکن ان کے ثمرات ک…
مشترکہ جامع اقدامات کا منصوبہ 2015
سرمایہ پرست طاقتوں کی کوئی اَخلاقیات نہیں ہوتیں۔ سرمایہ اور اس کا حصول ان کی زندگی کا منشا و مقصود اور محور رہتا ہے۔ یہ طاقتیں دنیا میں کبھی کسی سے کوئی معاہدہ کرتی ہیں …
عالمی اجارہ دار کمپنیوں کے خلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج
انڈین پارلیمان نے ستمبر 2020ء کے تیسرے ہفتے میں زراعت کے متعلق یکے بعد دیگرے تین بل متعارف کروائے، جنھیں فوراً قانونی حیثیت دے دی گئی۔ انھیں ’’بازار کو سہولت …