إِنَّ الَّذينَ آمَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالنَّصارىٰ وَالصّابِئينَ مَن آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ وَعَمِلَ صالِحًا فَلَهُم أَجرُهُم عِندَ رَبِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ۞(-2 البقرہ: 62 )
(بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے، اور جو لوگ یہودی ہوئے، اور نصاریٰ، اور صائبین، جو ایمان لایا (ان میں سے) اللہ پر اور روز ِقیامت پر، اور کام کیے نیک تو اُن کے لیے ہے اُن کا ثواب اُن کے ربّ کے پاس، اور نہیں اُن پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
گزشتہ آیات میں واضح کیا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے بنی اسرائیل کی ذہنی، فکری، علمی اور عملی ترقی کے لیے وقتاً فوقتاً رہنمائی کی۔ انھیں کامیابی کا راستہ دکھایا، لیکن مجموعی طور پر اُن میں غلامی کے پیداشدہ اثرات اور دیگر خرابیوں کے سبب انھیں وہ ترقی حاصل نہ ہوسکی، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جدوجہد کا ہدف تھا۔ اُن کے مجموعی کردار کا نتیجہ یہ ہو اکہ وہ سیاسی ذلت اور معاشی بدحالی کے عذاب میں مبتلا ہوگئے، البتہ اُن میں چند ایسے افراد ضرور موجود رہے، جو انبیا علیہم السلام کی سچی اتباع کے ذریعے سے ہر دور میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوتے رہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں ایک اُصولی ضابطہ اور قانون بیان کیا جا رہا ہے کہ بلاتفریق مذہب و ملت و نسلی امتیاز کے جو جماعت بھی صدقِ دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے، آخرت پر یقین رکھے اور اپنے اعمال کو درست کرے، اُن کے لیے کامیابی ہے۔ نسلی برتری اور اختلافِ ملک و ملت کے حوالے سے پیدا شدہ تفریق کی کوئی حیثیت نہیں۔ تمام انبیا علیہم السلام کی ان مشترکہ تعلیمات کی اتباع میں کامیابی ہے۔
إِنَّ الَّذينَ آمَنوا: سب سے پہلے کتابِ مقدس قرآن حکیم او رنبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے والی جماعت کا تذکرہ کیا ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے، اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک ماننے کا اقرار کیا، رسول اللہؐ کی اتباع کے تسلیم کرنے کا اِظہار کیا۔ عربوں میں سے اُس وقت تک قریش اور اوس و خزرج کے قبائل ایمان لائے تھے، وہ اپنی قبائلی نسل پرستی او رجاہلانہ عصبیت کے دائرے سے پورے طور پر باہر نہیں نکلے تھے، اس لیے انھیں بھی یہاں مخاطب کیا جا رہا ہے۔ انھیں بھی اس جاہلانہ عصبیت کے دائرے سے نکل کر آیت کے آخر میں بیان کردہ تین اُمور کی اخلاص کے ساتھ پابندی کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
وَالَّذينَ هادوا:وہ لوگ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات پر ایمان لانے کے دعوے دار ہیں، اپنے آپ کو ’’یہودی‘‘ کہتے ہیں، وہ بھی نسلی برتری کے مرض میں مبتلا ہیں اور انبیا علیہم السلام کی تعلیمات پر پورے طریقے سے عمل کرنے کے روادار نہیں ہیں، اُن کے بارے میں بھی یہ اصول اور ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے۔
وَالنَّصارىٰ:وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن پر نازل کردہ کتاب انجیل پر ایمان لانے کے دعوے دار ہیں، وہ بھی اپنے مخصوص تحریف شدہ دین کی فرقہ وارانہ گروہیت سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے خود ساختہ رہبانیت کی چادر اوڑھی ہوئی ہے اور ایمان کی اصل حقیقت سے بہت دور ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’بنی اسرائیل اس بات پر مغرور تھے کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں۔ ہم ہر طرح اللہ کے نزدیک بہتر ہیں۔ یہود کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت کو، اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت کو‘‘۔
وَالصّابِئينَ:ہر قوم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انبیا علیہم السلام اور قوموں کو ڈرانے والے ’’نذیر‘‘ آتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: (کوئی اُمت ایسی نہیں، جس میں ہم نے کوئی ڈرانے والا نہ بھیجا ہو) (-35 الفاطر:24) ۔ دنیا کی ان بڑی بڑی اقوام میں اِن ڈرانے والے انبیا و حکما کے ذریعے مذاہب و ملل وجود میں آتے رہے۔ اُن میں تحریفات ہوئیں اور اُن قوموں اور نسلوں میں بھی مذہبی گروہیت اور نسلی برتری اور عصبیت رہی ہے۔ وہ بھی اپنے فرقہ وارانہ گروہیت سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
صائبین سے مراد بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے علاوہ دُنیا کی وہ اقوام اور ملتیں ہیں، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت اِبراہیم علیہ السلام سے پہلے تک کے انبیا اور حکما کی تعلیمات قبول کرنے کے دعوے دار رہی ہیں۔ ان زیادہ تر اَقوام میں ایران کے مجوس، ہندوستان کے ہندو، چین کے بدھ اور یونانی اور رومی نسلیں قبل از قبولِ عیسائیت شامل ہیں۔ ان میں بھی عصبیت اور گروہیت بھری ہوئی تھی۔
مَن آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ وَعَمِلَ صالِحًا:ان چاروں جماعتوں، گروہوں، فرقوں اور ملتوں کے افراد میں سے کوئی فرد اور جماعت ان تین بنیادی اساسی اُمور پر عمل کرے گا، وہی اجر کا مستحق اور علمی و عملی طور پر کامیاب ہے:
(الف) جو اللہ پر صدقِ دل سے ایمان لایا، کائنات میں جاری اُس کے نظام کو پورے یقین کے ساتھ تسلیم کیا، اُن کی شہنشاہیت اور حکومت کا اقرار کیا۔
(ب) جس نے آخرت کے دن پر صدقِ دل سے ایمان رکھا، موت کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کے جزا و سزا پر یقین رکھا۔
(ج) اللہ تعالیٰ سے تعلق اور انسانیت کی خدمت کے حوالے سے اچھے اعمال کیے۔
فَلَهُم أَجرُهُم عِندَ رَبِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ:جن لوگوں نے بھی یہ تین اُمور سرانجام دیے، اُن کے لیے اُن کے ربّ کے ہاں بڑا اَجر ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’یعنی کسی فرقۂ خاص پر موقوف نہیں، یقین لانا شرط ہے اور عملِ نیک۔ سو جس کو یہ نصیب ہوا، ثواب پایا۔‘‘ ایسے لوگوں پر نہ ہی کسی قسم کا مستقبل میں کوئی خوف ہے اور نہ ہی ماضی کے کسی عمل پر افسوس اور غم۔ وہی کامیاب ہیں۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …