ہارون الرشید
خلافتِ بنوعباس کے تیسرے خلیفہ، ابوجعفر منصور کے بیٹے محمد مہدی تقریباً دس سال مسند ِخلافت پر فائز رہے۔ محمدمہدی فرض شناس حکمران کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کا دورِ خلافت امن و امان کا دور تھا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے موسیٰ ہادی تخت نشین ہوئے، جو کہ ہارون الرشید کے بڑے بھائی تھے، لیکن وہ سال سوا سال ہی حکمرانی کرسکے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی ہارون الرشید تخت نشینِ خلافت ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 22 سال تھی۔ عباسی خلفا میں مختلف حوالوں سے سب سے زیادہ شہرت انھیں کو حاصل ہوئی۔
ہارون الرشید دین دار، پابند ِشریعت حکمران تھے۔ وہ علم دوست اور علما کے قدردان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ خلافت علم و فن کے اعتبار سے سنہری دور کہلاتا ہے۔ انھوں نے بغداد میں لائبریریاں قائم کیں۔
سائنسی و ثقافتی ترقی کے لیے بیت الحکمت کی بنیاد رکھی، جس کی وجہ سے بغداد ادب و فن اور سائنس و ثقافت کا گہوارہ بنا۔ بیت الحکمت میں دارالترجمہ قائم ہوا، جس میں یہودی، عیسائی، پارسی اور ہندو مترجمین مختلف علوم و فنون کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کرتے۔ اس وقت بیش تر سائنسی و ادبی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔ ہندوستان کے علوم و فنون کو عربی زبان میں منتقل کرنے کے کام کا آغاز بھی ہارون الرشید کے زمانے میں ہوا۔
ہارون الرشید نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگردِ رشید امام ابویوسفؒ کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ (چیف جسٹس) مقرر کیا اور ان سے مملکت کے مالیاتی نظام، خصوصاً مالی محاصل کے بارے میں رہنمائی کی درخواست کی۔ چناں چہ امام ابویوسفؒ نے اسلام کے مالیاتی نظام کی تفصیلات قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہؓ کی روشنی میں بڑی وضاحت کے ساتھ مرتب فرما کر خلیفہ کی خدمت میں میں پیش کیں، جو آج ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے ہمارے پاس ہے۔
قاضی ابویوسفؒ اسی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ:
’’امیر المؤمنین ہارون الرشید نے مجھ سے ایک جامع دستاویز کی فرمائش کی، جس کو وہ خراج، عشر اور دیگر محصولات کے وصول کرتے وقت اپنے پیش نظر رکھ سکیں۔ ۔۔۔ اس سے امیرالمؤمنین کا مقصد اپنی رعایا سے ہر طرح کے معاشی ظلم کا ازالہ کرنا اور اُن کے مالیاتی معاملات کو سلجھانا تھا‘‘۔
(کتاب الخراج، ص:11، طبع: پشاور)
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
علامہ ابن خلدونؒ کا نظریۂ تعلیم
انسان علم و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے دیگر حیوانات سے ممتاز ہے۔ فکری قوت و استعداد کی وجہ سے وہ اُمورِ معاش پر غور کرتا ہے۔ دیگر اَبنائے جنس کے ساتھ معاملات …
مامون الرشید کا علمی ذوق
بیت الحکمت بغداد کا علمی ادارہ اگرچہ ہارون الرشید نے قائم کیا تھا،لیکن اس کو کمال کی بلندیوں تک پہنچانے اور ایک تحقیقی ادارہ بنانے کا سہرا مامون الرشید کے سر ہے۔ مامون ا…
امامِ ربانی مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ کا نظریۂ وحدت الشّہود
’’وحدت الشّہود‘‘ کالفظی معنی ہے: ’’شہود کا ایک ہونا‘‘۔ ’’شہود‘‘ اسم مفعول، مشہود کے معنی میں ہے، ی…
سوسائٹی کے افتراق و انتشار کا سبب ؛ پست علوم و افکار
سورت البقرہ کی آیت 102 (حصہ اوّل) میں بنی اسرائیل نے شیطانی قوتوں سے انسان دشمن علم سیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہوا تھا، جو سراسر غلط اور خلافِ حقیقت …