وَإِذ قُلنَا ادخُلوا هٰذِهِ القَريَةَ فَكُلوا مِنها حَيثُ شِئتُم رَغَدًا وَادخُلُوا البابَ سُجَّدًا وَقولوا حِطَّةٌ نَغفِر لَكُم خَطاياكُم ۚ وَسَنَزيدُ المُحسِنينَ
فَبَدَّلَ الَّذينَ ظَلَموا قَولًا غَيرَ الَّذي قيلَ لَهُم فَأَنزَلنا عَلَى الَّذينَ ظَلَموا رِجزًا مِنَ السَّماءِ بِما كانوا يَفسُقونَ
(اور جب ہم نے کہا: داخل ہو اس شہر میں، اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے، اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے، اور کہتے جاؤ بخش دے، تو معاف کردیں گے ہم تمھارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو۔ پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی ان سے۔ پھر اُتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے ان کی عدولِ حکمی پر۔)
گزشتہ آیت میں بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت کے لیے صحرائی زندگی میں اجتماعیت سے متعلق اُمور واضح کیے گئے تھے۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کے لیے ابتدائی درجے کی شہری تربیت کے اُمور اور اُس سے متعلق مسائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بنی اسرائیل نے جس طرح اِن اُمور میں تبدیلی کی، اس کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔
وَإِذ قُلنَا ادخُلوا هٰذِهِ القَريَةَ:بنی اسرائیل کو صحرائی زندگی میں اجتماعی اُمور سے متعلق مراحل سے گزارنے کے بعد شہری اجتماعیت قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ گویا جماعتی حوالے سے تربیت کی اَخلاقی تہذیب و اِصلاح کے بعد اب اگلے دور میں انھیں شہری زندگی میں داخل ہونے سے متعلق آداب بتلائے جا رہے ہیں۔ کسی بستی میں رہنے کے لیے اجتماعیت سے متعلق تشریعی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس اجتماعیت کے لیے اپنے بنیادی فکر پر یکسوئی بھی لازمی ہوتی ہے۔ چناںچہ بستی کی اجتماعیت شروع کرتے ہوئے درجِ ذیل احکامات اور قوانین کی پابندی کرنا لازمی ہے:
(1)فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا:بہترین اجتماعیت کے لیے عمدہ، متنوع اور من پسند غذا بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اب تک بنی اسرائیل صحرائی زندگی میں مسلسل مَن و سلویٰ کی صورت میں یکساں غذا کھاتے رہے تھے، اب انھیں شہر میں داخل ہو کر ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں مہیا کی جائیں گی۔ جس کے ذریعے سے جسمانی مضبوطی اور طاقت پیدا ہو اور وہ اجتماعی اُمور کو پوری توانائی کے ساتھ سرانجام دیں۔
(2)وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا:اس موقع پر یہ بھی لازمی ہے کہ انبیا علیہم السلام کے زیرنگرانی قائم ہونے والی اجتماعیت میں ابراہیم علیہ السلام کی تحریکِ حنیفیت کو سامنے رکھا جائے۔ چناں چہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے یکسوئی کے ساتھ سجدہ ریز ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے بستی کے دروازے میں داخل ہوتے وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ دیہاتی اور صحرائی لوگ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کی بہیمی طبیعت انھیں ضرورت سے زائد کھانے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اندھا دھند کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے موقع پر بنی اسرائیل کو حکم دیاگیا کہ جب وہ بستی کے دروازے پر پہنچیں تو تھوڑا رُکیں، اپنے ربّ کو یاد کریں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں، تاکہ اُن کی طبیعت میں اعتدال پیدا ہوجائے اور توجہ الیٰ اللہ کرنے سے اُن میں سے زیادہ کھانے پینے کی حرص ختم ہوجائے۔ اس طرح بہیمیت اور مَلَکِیَّت میں ایک توازن پیدا ہوگا۔
(3)وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ:بنی اسرائیل کو تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ چوں کہ اب آئندہ زندگی شہر میں اجتماع کے طور پر گزارنی ہوگی، تو آنے والی طویل اجتماعی زندگی میں ’’حِطّۃٌ‘‘ یعنی ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں معاف کردے‘‘ کہتے رہیں، تاکہ وہ اپنے ربّ کی طرف متوجہ رہیں اور اس دوران ہونے والی انفرادی اور اجتماعی غلطیوں اور گناہوں سے استغفار اور معافی مانگتے رہیں۔ اُن کی توجہ صرف کھانے پینے ہی کی طرف نہ رہے۔ وہ ضرورت سے زائد کھانے پینے میں مشغول نہ ہوں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے کوئی آدمی اپنے بچے کو کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیتا ہے۔ جب کھانے پر بیٹھتا ہے تو اُس کو اچھے واقعات اور عمدہ گفتگو میں لگائے رکھتا ہے، تاکہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا نہ کھائے۔ وہ صرف کھانے پینے ہی کی لذت میں مشغول نہ رہے۔ اگر بچہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا ہے تو پیٹ خراب ہوجاتا ہے، جسمانی مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو آدمی اپنی طبیعت پر کنٹرول کرتے ہوئے قوانین کی پابندی کرتا ہے، اس کی طبیعت ٹھیک رہتی ہے، ورنہ وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ اجتماعی قوانین کی پابندی سے معاشروں میں عمدہ ڈسپلن اور بہترین نظام قائم ہوتا ہے۔ شریعت کا بنیادی مقصد دراصل ایسے ہی قوانین کے ذریعے بہیمی اور حیوانی تقاضوں کو اعتدال کے ساتھ پورا کرکے قوموں کی اجتماعی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔
فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ:بنی اسرائیل کی اجتماعی ترقی کے لیے ان تمام تر اُمور کی قانون سازی کی گئی تھی، لیکن انھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا اور جس استغفار کرنے اور اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہونے کا انھیں حکم دیا گیا تھا، انھوں نے اسے بدل دیا۔ انھوں نے اپنے مَلَکی اور روحانی تقاضوں کو نظرانداز کرکے صرف گندم خوری کی اور محض حیوانی تقاضوں کو پورا کرنے کی حرص میں مبتلا ہوکر رہ گئے۔
فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ:اس طرح وہ قانون شکنی کرتے ہوئے فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے۔ چناںچہ خوب ڈٹ کر کھانے سے اُن کے پیٹ خراب ہوگئے۔ اُن میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئیں۔ اس وجہ سے اُن کے جسموں میں تعفن پیدا ہوا، جس نے طاعونی وبا کی صورت اختیار کرلی، جس میں بہت سے اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔ ان قوانین کی سب لوگوں نے پابندی نہیں کی اور خود اپنی بدعملی کی وجہ سے عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوئے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …