غلامی سے آزادی کا حصول؛ انعامِ الٰہی

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Feb 17, 2021 - Dars-e-Quran
غلامی سے آزادی کا حصول؛ انعامِ الٰہی

وَإِذ نَجَّيناكُم مِن آلِ فِرعَونَ يَسومونَكُم سوءَ العَذابِ يُذَبِّحونَ أَبناءَكُم وَيَستَحيونَ نِساءَكُم ۚ وَفي ذٰلِكُم بَلاءٌ مِن رَبِّكُم عَظيمٌ (القرآن، البقرہ: 49) 
(اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب۔ ذبح کرتے تھے تمھارے بیٹوں کو، اور زندہ چھوڑتے تھے تمھاری عورتوں کو۔ اور اس میں آزمائش تھی تمھارے ربّ کی طرف سے بڑی) 
گزشتہ سے پیوستہ آیت میں بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ: ’’میری اُن نعمتوں کو یاد کرو، جو میں نے تم پر کی ہیں‘‘۔ ان میں غلامی سے آزادی کے حصول کی سب سے پہلی نعمت اس آیت ِمبارکہ میں انھیں یاد کرائی گئی ہے، تاکہ قوموں میں غلامی سے نکلنے اور آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کا جذبہ بیدار ہو۔ 
وَإِذ نَجَّيناكُم مِن آلِ فِرعَونَ : کسی قوم کے لیے سب سے بڑی نعمت ظلم اور ناانصافی اور غلامی کے نظام سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرتی اور دوسروں کے فیصلوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوتی ہے، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کی فرعونی نظام سے نجات پر مشتمل انعام کا تذکرہ ہے۔ مصر کے ہر حکمران کو ’’فرعون‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حکمران کے تمام مددگار اور معاون آلِ فرعون میں شامل ہیں۔ یہاں ’’آلِ فرعون‘‘ سے مراد فرعون، اس کی قبطی نسل اور حکومت کی انتظامیہ ہے۔ 
بنی اسرائیل حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر آئے تھے۔ وہ ایک عرصے تک مصر میں آزادی اور امن کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون نے بنی اسرائیل پر بڑے ظلم ڈھا رکھے تھے۔ ملک مصر میں سرکشی، تکبر، بداَمنی، معیشت کا طبقاتی نظام قائم تھا۔ اس نے پورے ملک میں فساد برپا کیا ہوا تھا۔ اس فرعون نے بنی اسرائیل کو آزادی سے محروم کر رکھا تھا۔ ان کی نسل کشی کر رہا تھا۔ وہ معاشی پستی اور ذلت کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ ان پر ہر طرح کا ظلم کیا جا رہا تھا۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے ان پر احسان کیا اور انھیں فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ چناںچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو طُور پہاڑ پر بلا کر نبوت کی نعمت سے سرفراز کیا تو ان سے فرمایا کہ : ’’جاؤ فرعون کی طرف کہ اس نے سرکشی کی ہے‘‘۔ (القرآن 17:79) حضرت موسیٰؑ نے فرعون کے سامنے جا کر سب سے پہلا پیغام بھی یہی دیا کہ: ’’بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو‘‘ (القرآن 17:26) اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی آزادی کے لیے سب سے پہلے جدوجہد اور کوشش کی، تاکہ انھیں فرعون کے ظلم اور ناانصافی سے نجات دلائی جائے۔ 
يَسومونَكُم سوءَ العَذابِ: فرعون اور اس کی نسل نے بنی اسرائیل پر بڑا ذلت آمیز عذاب مسلط کیا ہوا تھا۔ اس ظالم، جابر اور انسانیت دشمن حکمران نے ان کو صبح اور شام، دن رات انتہائی پست کاموں میں لگا رکھا تھا۔ ان سے اپنے ذاتی اور طبقاتی مفادات پورے کرتے تھے۔ اس طرح انھیں بڑا ذلیل اور رُسوا کیا ہوا تھا۔ 
ذَبِّحونَ أَبناءَكُم وَيَستَحيونَ نِساءَكُم ۚ  : یہاں تک کہ ان کے لڑکوں کو قتل کراتا اور ان کی عورتوںکو زندہ رکھتا تھا۔ اس طرح ان کی توہین اور تذلیل کرتا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ: ’’بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے، جو مصر کے شہروں میں صرف قبطیوں کے گھروں میں داخل ہوئی ہے۔ بنی اسرائیل کے گھر اس سے محفوظ رہے‘‘۔ نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتلائی کہ اس کی حکومت کا خاتمہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک آدمی کے ہاتھ سے ہوگا، جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو حکومت اور سربلندی حاصل ہوگی۔ اس پر اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا ظالمانہ حکم دیا۔ 
وَفي ذٰلِكُم بَلاءٌ مِن رَبِّكُم عَظيمٌ: یہ بنی اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش اور امتحان تھا۔ ’’ بَلاءٌ‘‘ کا لفظ بڑا جامع ہے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں کہ: ’’بَلاءٌ‘‘ کے چند معنی ہوتے ہیں: اگر ذٰلِكُم کا اشارہ ’’ذبح‘‘ کی طرف لیا جائے تو اس کے معنی ’’مصیبت‘‘ کے ہوں گے۔ اور اگر ’’نجات‘‘ کی طرف اشارہ ہے تو ’’بَلاءٌ ‘‘ کے معنی ’’نعمت‘‘ کے ہوں گے۔ اور مجموعہ کی طرف ہو تو ’’امتحان‘‘ کے معنی لیے جائیں گے‘‘۔ 
کسی قوم کے لیے سب سے بڑا امتحان اور عذاب یہ ہے کہ اس کی طاقت ور نسل کو قتل کرا دیا جائے اور کمزوروں کو ذلت اور رُسوائی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ اس لیے جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے بڑی عمر کے مرد اپنی موت آنے پر مر جاتے ہیں اور چھوٹے بچے ذبح ہو رہے ہیں تو انھوں نے سمجھا کہ اس طرح تو ایک دن بنی اسرائیل کی نسل فنا ہوجائے گی۔ اپنی نسل بچانے کے لیے انھوں نے فرعونیوں اور قبطیوں کے لیے ذلت آمیز اعمال پر مبنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں، تاکہ اپنی وقتی معاشی ضروریات پوری کریں اور فرعونیوں کو باور کروایا کہ اگر ہماری نسل ختم ہوگئی تو تمھارے پست او رذلت والے اعمال کون سرانجام دے گا؟ اس پر فرعون نے ایک سال پیدا ہونے والے بچوں کے قتل کا حکم دیا، جب کہ دوسرے سال لڑکوں کو زندہ رکھنے کا حکم دیا۔ چناںچہ حضرت ہارون علیہ السلام کی پیدائش اُس سال ہوئی، جس میں بچوں کو زندہ رکھنے کا حکم تھا۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اس سال میں ہوئی جس میں بچوں کے قتل کا حکم تھا۔ اس امتحان او رآزمائش کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ پھر انھیں فرعون کے گھر پرورش کے لیے منتقل کیا، تاکہ ایک تو اُن کی حفاظت رہے اور دوسرے یہ کہ وہ فرعونی نظام کے ظلم کو پوری طرح کسی قوم کے لیے سب سے بڑا امتحان اور عذاب یہ ہے کہ اس کی طاقت ور نسل کو قتل کرا دیا جائے اور کمزوروں کو ذلت اور رُسوائی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ اس لیے جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے بڑی عمر کے مرد اپنی موت آنے پر مر جاتے ہیں اور چھوٹے بچے ذبح ہو رہے ہیں تو انھوں نے سمجھا کہ اس طرح تو ایک دن بنی اسرائیل کی نسل فنا ہوجائے گی۔ اپنی نسل بچانے کے لیے انھوں نے فرعونیوں اور قبطیوں کے لیے ذلت آمیز اعمال پر مبنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں، تاکہ اپنی وقتی معاشی ضروریات پوری کریں اور فرعونیوں کو باور کروایا کہ اگر ہماری نسل ختم ہوگئی تو تمھارے پست او رذلت والے اعمال کون سرانجام دے گا؟ اس پر فرعون نے ایک سال پیدا ہونے والے بچوں کے قتل کا حکم دیا، جب کہ دوسرے سال لڑکوں کو زندہ رکھنے کا حکم دیا۔ چناںچہ حضرت ہارون علیہ السلام کی پیدائش اُس سال ہوئی، جس میں بچوں کو زندہ رکھنے کا حکم تھا۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اس سال میں ہوئی جس میں بچوں کے قتل کا حکم تھا۔ اس امتحان او رآزمائش کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ پھر انھیں فرعون کے گھر پرورش کے لیے منتقل کیا، تاکہ ایک تو اُن کی حفاظت رہے اور دوسرے یہ کہ وہ فرعونی نظام کے ظلم کو پوری طرح سمجھ کر اس سے نجات کا راستہ اختیار کریں۔ 

Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri

Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur

Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences

Related Articles

عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Jul 07, 2021

دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی

گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Mar 13, 2024

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Nov 11, 2022

جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال

(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …

Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri Aug 25, 2022