پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس آبادی کو مناسب چھت دینے کے لیے پاکستان میں سالانہ تین لاکھ پچاس ہزار گھروں کی ضرورت ہے، جب کہ اسے پوار کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ گھر تعمیر ہورہے ہیں۔ یہ مسئلہ اب اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ اب ایک کروڑ گھر وں کی تعمیر ہی اس خلیج کو پاٹ سکتی ہے، جب کہ پاکستان میں دو کروڑ تیس لاکھ گھر موجود ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں گھروں کی کمی کا شکار عوام الناس ان دنوں کہاں رہنے پر مجبور ہے؟ چناں چہ بڑے شہروں کے مضافات میں یا بیچ وبیچ کچی آبادیاں اور بے ہنگم رہائشی کالونیاں جہاں رہنے کی سہولیات نامی کوئی چیز نہیں، دراصل آمدنی کے مختلف مدارج کے لحاظ سے لوگوں کو جگہ دیے ہوئے ہیں۔
ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتیں پالیسیاں بنایا کرتی ہیں۔ ماشاء اللہ ہم ’’پالیسی‘‘ بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہ کام ہم نے سال 2001ء میں کرلیا تھا اور اس کے اہداف بھی طے کرلیے گئے تھے، لیکن ہر شعبے کی طرح اسے کسی نے سنجیدہ نہیں لیا اور آج بیس سال بعد ہم ایک مثالی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت لینڈ ریکارڈ کی تصحیح، نجی اور حکومتی اداروں کی مدد سے ہاؤسنگ فنانس، یعنی آسان قرضوں کا نظام، کچی آبادیوں کی تنظیمِ نو اور رہائشی اعتبار سے تعمیرِنو، نئی ہاوسنگ سوسائٹیوں کے قیام کا نظام اور سب سے اہم اس شعبے سے منسلک ٹیکس کے نظام میں یکسوئی اور ایسی بہتری جو گھروں کی تعمیر کے عمل کی حوصلہ افزائی کرے۔
کاش اس پالیسی کے تحت نظام بھی بنا لیا جاتا، لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا آغاز کرلیا گیاہے۔ پہلے تحصیل دار، گرداور اور پٹواری کو انتقال ملکیت پر کمیشن دینا پڑتا تھا، اب اس میں کمپیوٹر والے کا اضافہ ہوچکا ہے اور کمپیوٹر کب بیٹھ جائے، کہا نہیں جاسکتا ۔ پنجاب میںاب تک 26 ہزار مواضعات کمپیوٹرائزڈ ہوچکے ہیں اور 3ہزار باقی ہیں، لیکن یہ سب درست جمع بندی اور بندوبستِ اراضی کے بغیر ہوا ہے۔ اس لیے اسے خانہ پُری کمپیوٹرائیزیشن کہا جائے تو بے جا نا ہوگا۔ یاد رہے آخری دفعہ بندوبستِ اراضی 1940ء میں کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک 80 سال گزرنے، زمینوں کی نوعیت بدلنے اور آبادی کی کثرت کے باوجود پاکستان کی اراضی کا کوئی بندوبست باقاعدہ طور پر نہیں کیا گیا۔
اس وقت پاکستان کے پرائیویٹ بینکوں نے کُل 300 کھرب روپے کا قرض حکومت اور دیگر شعبہ جات کو جاری کیا ہوا ہے، جس میں سے گھروں کی تعمیر پر 375ارب روپے دیے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عام شہری کے لیے بینک سے قرض لینا کتنا مشکل ہے۔
پاکستان میں خصوصاً معاشی سرگرمیوں سے متعلق قوانین کی اکثریت یورپ اور امریکی قوانین کی نقل ہی ہوتے ہیں، لیکن انتقالِ زمین کے قوانین ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہیں، جو انگریز حکمرانوں نے برصغیر کی مخصوص سیاسی صورتِ حال، ریوینیو کی وصولی اور جاگیرداریت کو رواج دینے کے لیے بنائے۔ جدید دور میں ہماری مقتدرہ نے اس کے اندر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا تڑکا بھی لگا لیا ہے۔ چناں چہ قبضہ مافیا‘ ملکیّتی زمینوں کے علاوہ مشترکہ عوامی مفاد کی زمینوں جیسے ’’شاملات‘‘ پر ایسے حق جتلاتا ہے، جیسے وہ ان کی کوئی کھوئی ہوئی زمین ہو اور قتل و غارت گری کا ایک بازار ہے جو گرم ہے۔ جب کہ کارپوریٹ قوانین (Corporate Laws) کے تناظر میں دیکھا جائے تو عام عوام سے سرمایہ کاری کروانے کے لیے کسی بھی قسم کی پبلک لمیٹڈ کمپنی کو ایک طویل اور مشکل کاغذی کارروائی سے گزرنا ہوتا ہے۔ مالکان کو اس عمل میں بیسیوں گارنٹیاں بھی رکھوانی پڑتی ہیں۔ پھر جا کر کمپنی کو عام عوام سے سرمایہ وصول کرنے کی اجازت ملتی ہے، جب کہ پراپرٹی سے متعلق سرمایہ کاری کا کوئی واضح قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی بدنیت اُٹھتا ہے اور بغیر کسی کاغذی کارروائی اور گارنٹی کے لوگوں سے اربوں روپے بٹور لیتا ہے، اور اس کے بعد کی کہانی سے تو ہم سب واقف ہیں۔ یہ کام اتنا سہل ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے بھی اب اس تباہی میں صفِ اوّل کے حصہ دار بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں ہاؤسنگ سے وابستہ پاکستان کے مشہور بزنس مین کا بیان کہ ’’سوسائٹیاں زمین پر نہیں، کاغذوں پر بنتی ہیں‘‘ مسئلے کو بالکل واضح کردیتا ہے۔
اس پالیسی کے بیس سال بعد پاکستان کی ہر ہاؤسنگ سوسائٹی لوٹ مار کا ایک منصوبہ ہی دکھائی دیتی ہے، جو دراصل ہماری مقتدرہ کا من پسند پیشہ ہے۔ چناں چہ آئے دن ہم میڈیا پر مختلف متأثرینِ سوسائٹی کی آہ و بُکا سنتے ہیں، لیکن ہمارے قوانین ایسے فرسودہ ہیں کہ ان پر کوئی کچھ نہیں کرسکتا، اور خصوصاً اس وقت جب مد مقابل کوئی طاقت ور مافیا ہو۔
عوام کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُن کو رہنے کے لیے ایک چھت میسر آجائے۔ والدین خواہش کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی اولادوں کے مکان دیکھ لیں۔ یہ خواب حسرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ کسی پیداواری صنعت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ لینڈ مافیا کسی بھی ایسی پالیسی کو اوّل تو بننے ہی نہیں دیتا کہ جس سے زمین عام عوام کی دسترس میں آسکے اور دوسرا اگر کوئی ایسی پالیسی خدا نخواستہ بن بھی جائے تو اُسے چلنے نہیں دیا جاتا۔ جیسے حال ہی میں ’’خالی پلاٹ جس کی مالیت اڑھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے، اُس پر ایک فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا‘‘ کے فیصلے کو واپس لے لیا گیا ہے۔ پراپرٹی کا کاروبار اور سسٹم مقامی طور پر منی لانڈرنگ کا سب سے مؤثر اور بڑا ذریعہ ہے، جسے ملک کی سا لمیت کے لیے ختم کرنابہت ضروری ہے۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…