کہا جاتا ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس شعبے سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ گزشتہ اَدوار میں صوبہ پنجاب سے پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کی جاتی تھیں اور پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ہے وغیرہ۔ یقینا یہ سب فخر کی باتیں ہیں، لیکن فخر کو قائم اور لوگوں کے لیے مفید رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے زیادہ کام کیا جائے۔ کہنے کو تو ہم ایک زرعی ملک ہیں، لیکن لگتا ہے کہ مذہبی کے ساتھ اب زرعی بھی ایک رسمی استعارہ بن چکا ہے۔ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 45کروڑ نفوس پر مشتمل ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں پہلے سے غذائی قلت کی شکار آبادی آمدہ تیس سال میں بہ تدریج اَبتر صورتِ حال سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متأثر ہورہے ہیں۔ چناںچہ 2025ء تک پاکستان میں روزگار کے علاوہ پانی کی قلت بھی انسانی نقل مکانی کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہوگی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 1990ء سے پاکستان میں ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آنے والی آفات قریباً دوگنی ہوچکی ہیں۔
پاکستان کے42 فی صد محنت کشوں کا تعلق زراعت سے ہے، جو سالانہ 5 کروڑ 78 لاکھ ایکڑ رقبے پر کام کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس رقبے میں سے 52 فی صد زمین مصنوعی آب پاشی کے طریقوں سے سیراب ہوتی ہے، جو کُل زرعی پیداوار کا 90 فی صد فراہم کرتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سال 2019ء میں پڑنے والی شدید گرمی اور اس کے نتیجے میں زیادہ بارشوں نے پاکستان کے تمام زرعی اعداد و شمار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ ہماری افسر شاہی کا رویہ، جو غذائی قلت کے بحران کو مزید گہرا کرنے میں معاونت کا کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہمارے رویے تو ایسے ہیں کہ جیسے ہم سے زیادہ سمجھ دار اور مستعد کوئی نہیں اور زرعی پیداوار میں گراوٹ کے سوال پر موسمیاتی تبدیلیوں اور گزشتہ حکومتوں پر بارِ ناکامی ڈالنا ایک روایت سی بنتی چلی جارہی ہے۔ دوسری جانب دنیا میں اعلیٰ منصوبہ بندی اور انتھک محنت سے زرعی پیداوار میں ناقابلِ یقین حد تک بہتری لانے کی کئی مثالیں ہیں، لیکن پاکستان سے رقبے اور آبادی میں کہیں چھوٹے ملک نیدر لینڈ نے تو کمال ہی کردیا۔ گلگت بلتستان کے برابر رقبے کا یہ ملک زرعی اجناس میں امریکا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس کی یہ ترقی انتھک محنت، اعلیٰ ترین منصوبہ بندی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ممکن ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کا 17 فی صد رقبہ سطح سمندر سے بھی نیچے ہے، جسے اُن لوگوں نے سمندر کے ساتھ بند باندھ کر قابلِ استعمال بنایا ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہیے۔ نیدرلینڈ جیسے ممالک سے معاونت حاصل کرنے کی حکمتِ عملی پر کام کرنا چاہیے، تاکہ من حیث القوم بڑھتی آبادی اور سُکڑتے وسائل کے چیلنج سے نبرد آزما ہوسکیں۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔