سورۃ البقرہ کی گزشتہ آیات (97 تا 99) میں واضح کیا گیا کہ ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے بنیادی حقائق میں سے ایک حضرت جبرائیل علیہ السلام کی تاریخی حقیقت کو ماننا ہے، جب کہ یہودیوں کی فکری گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے جبرائیل امینؑ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر نازل کی جانے والی وحی کی وجہ سے انھیں اپنا دشمن قرار دے دیا تھا۔ اس طرح وہ ملتِ حنیفی کے بنیادی فکر و فلسفے کا انکار کرکے گمراہی میں مبتلا ہوئے۔
ان آیات (100-101) میں یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے فکر و فلسفے کے بنیادی حقائق سے انحراف کی عادت اپنا لیتی ہے تو اُس کی عملی اجتماعی اور سیاسی زندگی بھی اس ملت کے بنیادی اُصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہے۔ یہودی لوگ ملتِ حنیفی کے بنیادی اُصولوں کی خلاف ورزی کرکے سیاسی بدعہدی کے مرض کا شکار تھے۔ وہ اجتماعی اور سیاسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوتے تھے۔ اس بے یقینی اور بے علمی کی وجہ سے سیاسی ذلت و رُسوائی اور معاشی بھوک و اِفلاس کی حالت میں مبتلا تھے۔
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ(کیا جب کبھی باندھیں گے کوئی قرار (عہد) تو پھینک دے گی اس (عہد) کو ایک جماعت ان میں سے ):
انسانی معاشروں کی سیاسی، معاشی اور سماجی شیرازہ بندی انسانوں کے درمیان وجود میںآنے والے سماجی معاہدات(Social Contracts)سے عبارت ہوتی ہے۔ کسی معاشرے کے افراد آپس میں سیاسی اور معاشی معاہدے میں بندھے ہوتے ہیں۔ ایسے معاہدات کی پاسداری سے ہی قوموں کی سیاسی اور معاشی قوت وجود میں آتی ہے۔ عہد شکنی کی روایت اختیار کرنے سے اُس قوم کی عملی سیاست فیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کی ایسی ہی سیاسی، معاشی اور اجتماعی خرابی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھو کہ جب بھی انھوں نے کسی فرد، قوم اور اجتماع سے کوئی معاہدہ یا عہد کیا تو ان کے مفاد پرست گروہ نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور اس سے روگردانی کی۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ لکھتے ہیں کہ: ’’ان کی یہ عادت قدیم ہے کہ جب اللہ، یا رسول، یا کسی شخص سے کوئی عہد مقرر کرتے ہیں تو انھیں میں (سے) کی ایک (مفاد پرست) جماعت اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے، بلکہ بہت سے یہودی ایسے ہیں، جو تورات پر ایمان نہیں رکھتے۔ ایسوں کو عہد شکنی میں کیا باک (روک) ہوسکتا ہے‘‘۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جو قوم عہد شکنی اور وفائے عہد کی قوت سے محروم ہوتی ہے، وہ کبھی سیاسیات میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لوگ اُس جماعت پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ان کی عہد شکنی قدم قدم پر انھیں سیاسی ذلت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(بلکہ ان میں اکثر یقین نہیں کرتے): جب کسی قوم میں عہد شکنی کی یہ روایت پختہ ہوجاتی ہے تو اُن کے اکثر لوگ اپنے فکر و نظریے پر ایمان و اِیقان کی کیفیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اُن کی اکثریت اپنی خواہشات اور مفاد پرستی کے خلاف اپنے مانے ہوئے آئین، دستور اور کتاب کو حقیقت میں تسلیم نہیں کرتی۔ صرف ظاہری طور پر اُس پر ایمان کا اظہار کرتی ہے۔ حقیقی طور پر وہ یقین سے خالی ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کا یہی معاملہ تھا کہ اُن کی اکثریت ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی عظیم ترین کتاب تورات کے دستوری حقائق اور قانونی نظام پر یقین نہیں رکھتی تھی۔
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ(اور جب پہنچا ان کے پاس رسول اللہ کی طرف سے تصدیق کرنے والا اس کتاب کی جو اُن کے پاس ہے، تو پھینک دیا ایک جماعت نے اہلِ کتاب سے): اب جب رسول اللہ ﷺ ملّتِ ابراہیمیہ کے بنیادی حقائق کے مطابق اللہ کی طرف سے ایسی کتاب لائے ہیں، جو یہودیوں کی کتاب یعنی تورات کی تعلیمات کی پوری طرح تصدیق کرتی ہے تو عادی عہد شکنوں کی بنی اسرائیلی جماعت اُسے بھی ماننے سے انکاری ہے۔ حال آں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب تورات کے بنیادی اُصولوں اور حقائق کی تصدیق کرنے والی ایک اَور عظیم کتاب اللہ کی طرف سے قرآن حکیم کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور اُس نے انھیں حکم دیا ہے کہ ملّتِ حنیفیہ کے بنیادی اُصولوں کو مضبوطی سے پکڑو اور جو انحرافات یا تغیر و تبدل تم نے کیے ہیں، انھیں چھوڑ دو تو انھوں نے اسے بھی پسِ پشت ڈل دیا۔ جب کہ انھیں کتابِ مقدس قرآن حکیم کی تعلیمات کو دل و جان سے قبول کرنا چاہیے تھا۔
كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘(کتاب اللہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے (کر دیا)، گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں): ان پر لازم تھا کہ وہ اجتماعی زندگی کے بنیادی معاہدات کو تسلیم کرتے اور اللہ کی کتابوں پر پوری طرح عمل کرکے اپنی فکری گمراہی کی خرابیوں کو دور کرتے اور اپنی سیاسی کمزوریوں کو دور کرکے ملّتِ حنیفی کی اَساس پر ایک نظام قائم کرتے، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ہی کتاب تورات کو بھی کچھ اس طرح پسِ پشت ڈال دیا، گویا کہ وہ اس کتاب کو جانتے ہی نہیں ہیں۔
اب ایک طرف تورات پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، دوسری طرف انھوں نے ان تعلیمات کو خلط ملط کردیا ہے۔ یہ لوگ فرشتوں اور ملائکہ کی جانب سے ہونے والی وحیٔ الٰہی اور انسان نما شیطانوں اور ابلیس کی سکھائی ہوئی باتوں کو باہم ملا کر تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس طرح اپنے زوال کے دور میں فکری گمراہی کے ساتھ ساتھ عملی سیاسی ذلت اور رُسوائی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
ان آیاتِ مبارکہ میں بنی اسرائیل کی فکری اور عملی خرابیوں کو بیان کرکے مسلمانوں کے سامنے یہ سوچ اور فکر واضح کی جا رہی ہے کہ وہ ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے اصل بنیادی عقائد و افکار اور تجلیات و انوارات اور عالم گیر فلسفہ و فکر کا شعور حاصل کریں، اُس پر پختگی کے ساتھ اپنے ایمان اور ایقان کو بڑھائیں اور اس حنیفی فکر کی اَساس پر معاہدات کی پاسداری، قانونی نظام کی پابندی اور دینی احکامات پر دل و جان سے عمل کرنے کی سیاسی، معاشی اور سماجی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہوں۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
Violation of laws and constitution; A Habit of Jews
The previous verses (87-90) of Surah Al-Baqarah mention the corruption of the Israelites, who continuously rejected comprehensive religious teachings sent by Allah, cont…
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
میثاقِ عدل کی واضح طور پر خلاف ورزی
سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (84) میں بنی اسرائیل کے میثاقِ عدل کا تذکرہ تھا۔ اس معاہدے کی دو شِقیں تھیں: (1) وہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ (2) وہ ایک دوسرے کو اپنے گھرو…