یورپی یونین کی جنگ بندی کی التجا !

Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Oct 11, 2022 - Global
یورپی یونین کی جنگ بندی کی التجا !

یوکرین جنگ کو کم و بیش 195 واں دن ہوچکا۔ ستمبر اپنا پہلا ہفتہ مکمل کرنے کے قریب ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ جاری ہے۔ ابھی تک یورپ کی سردیو ں میں شدت پیدا نہیں ہوئی۔ روس کو مختلف فورمز کے ذریعے جنگ بندی کی التجائیںآنا شروع ہوگئی ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ امن کی طرف آجائیں۔ معاملات بات چیت کے ذریعے حل کر لیتے ہیں۔ یہ پیغام یورپ کے ایک اہم ملک کی طرف سے ایران کو پہنچایا گیا ہے۔ انھوں نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے کہا ہے کہ: ’’آپ کے وزیر خارجہ 31؍ اگست2022ء کو ماسکو جانے والے ہیں۔ ہما را پیغام سرگئی لاروف کے حوالے کیا جائے، تاکہ وہ اسے وِلادی میر پیوٹن تک پہنچا دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یوکرین میں جنگ بندی ہوجائے‘‘۔ (ایران انٹر نیشنل 31اگست2022) پیغام دیتے وقت ایرانی وزیر خارجہ امیر عبدا للّہیان نے یورپ کے اہم ملک کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔ ویسے اس پیغام کا ٹائٹل ’’یورپین پیس اِنیشیٹِو ٹو رشیا‘‘ (European Peace Initiative to Russia)تھا۔ ایرانی اخبار کے مطابق یورپین سربراہ نے ایران سے کہا ہے کہ: آپ ثالث کا کردار ادا کرکے یوکرین تنازعہ حل کروانے میں ہماری مدد کریں۔ بعد میں ایک دوسرے ایرانی اخبار نے یورپین سربراہ کا نام بھی ظاہر کردیا ہے۔ ’’آئی ایس این اے نیوز‘‘ (ISNA news)کے مطابق فرانس کے صدر ایمینوئیل میکرون ہی تھے، جنھوں نے ’’یورپین پیس اِنیشیٹِو ٹو رشیا‘‘ رُوس کے صدر وِلادی میر پیوٹن تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

روس نے فرانس کی گیس تین دن (یکم؍ تا 3 ستمبر) بند کردی۔ روس نے اعلان نہیں کیا کہ گیس کتنے عرصے کے لیے بند رہے گی۔ فرانس کے صدر پہلے بھی یوکرینی تنازعہ ختم کروانے کی کوشش کررہے تھے، لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے انھیں روک دیا تھا۔ اب فرانس کی طرف سے پہنچائے گئے ’’امن کے جرأت مندانہ پیغام‘‘ پر کسی یورپی ملک نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا، بلکہ فرانس نے مزید کہا ہے کہ: ترکی جو ہمارے معاملات کو سلجھانے کے لیے آگے بڑھ کر ایک فرنٹ مین کا کردار ادا کرہا ہے، ہم خود بھی ایسا کام کرسکتے ہیں۔ ترکی نے کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ترکی بھی نیٹو کا ایک رُکن ہے۔ اور امریکا کا ایک عام اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ میکرون نے ایک اہم اجلاس میں دو باتیں ظاہر کردیں: پہلی یہ کہ جرمنی اور فرانس نے مارچ میں بھی ایسی کوشش شروع کی تھی، لیکن اس پر بہت سخت تنقید کی گئی کہ ایک طرف فرانس حملے کی مذمت کررہا ہے، دوسری طرف تعلقات استوار کرنے کے لیے مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیں۔ میکرون کے ان خیالات کے ساتھ ہی جو بائیڈ ن نے انھیں سائیڈ لائن کردیا۔

دوسری اہم بات کہ نیٹو 2014ء سے منصوبہ بندی کررہا تھا کہ یوکرین کے ساتھ مل کر کریمیا کو روس سے کیسے واپس لیا جائے؟ دوسرا ’’ڈان باس‘‘ میں علاحدگی پسندوں کی تحریک کو کیسے پروان چڑھایا جائے؟ یوکرین کے سابق صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ: یورپ کے کئی ممالک مارچ میں یوکرینی صدر کے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ جنگ جنگ کھیلنا بند کر و اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کاکوئی راستہ نکالو ! حتیٰ کہ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ: روس نے جن علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، تم ان کو بھول جاؤ اور ان علاقوں کو روس کے پاس رہنے دو! کیوں کہ آگے سردیاں آنے والی ہیں، حالات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

یوکرین والوں کا کہنا ہے کہ ہم روس کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں، ہم اس کے اقدامات کو ناکام بنا رہے ہیں، حال آں کہ یوکرین کے تما م اہم علاقوں پر روس کا قبضہ ہوچکا ہے۔ روس‘ یوکرین میں بہت احتیاط سے پیش قدمی کررہا ہے۔ وہ شہری علاقوں کو نشانہ بنائے بغیر آگے بڑھ رہا ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا پاور پلانٹ ’زیپورزیا‘ (Zaporizhzhya)میں ہے۔ اس کے اندر چھ یونٹ ہیں جو جوہری توانائی سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ روس کا اس پر قبضہ ہے۔ زیلنکسی نے وہاں اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ روس نے عالمی جوہری ایجنسی کے چیف کو لکھا کہ: یوکرینی حلقے پلانٹ کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ جوہری توانا ئی کا چیف اپنے 14 رُکنی وفدکے ساتھ 29؍ اگست 2022ء کو زیپورزیا پہنچ گیا۔ پہلے تو یوکرینی اہل کاروں نے روکنے کی بھر پور کوشش کی اور ڈرایا دھمکایا کہ وہاں مت جاو۔ کیوں کہ روس حملہ کرکے آپ کو ہلاک کردے گا۔ چیف نے کہا کہ: تم ہماری جان کی فکر نہ کرو۔ ہم موقع پر پہنچ کر مشاہدہ کریں گے اور پھر اپنی رپورٹ مرتب کریں گے۔ جب پورٹ مرتب کی تو زیلنسکی خوب سر پٹیا، چیخا چلایا اور اس نے بہت وا ویلا کیا۔

یوکرین جنگ کے دوران یورپ حالات کی سنگینی کو بھانپ چکا ہے۔ نیٹو اتحاد اگرچہ وارساپیکٹ کے خلاف وجود میں آیا تھا، لیکن وارسا پیکٹ کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد یورپ کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ کیوں کہ یوکرینی صدر کایورپی ملکوں کو غیرت کے نام پر اُکسانا اور امداد کے نام پر بھیک مانگنا‘ ظاہر کر تا ہے کہ جنگ نہ روکنا براہِ راست سی آئی اے کی حکمتِ عملی کا مظہر ہے۔ کیوں کہ یورپی اتحاد اس جنگ سے جان چھڑانا چاہتا ہے، لیکن امریکا سمجھتا ہے کہ اگر یورپ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تو امریکا سیاسی طور پر دیوالیہ ہوجائے گا۔ یورپ کاامریکی اثر سے نکلنا اسے ہمسائیوں کے قریب کردے گا۔ مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان آہنی دیواریں(Iron curtains)ہٹائی جا چکی ہیں۔ پھر روس نے امریکا کے مقابلے میں مغربی یورپ کے معاشی مسائل حل کیے ہیں، جب کہ امریکا نے انھیں جنگوں میں دھکیل کر انھیں اپنے مفادات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ جب روس نے امریکی اقدامات کے مقابلے میں احسا س دلایا تویورپ فوراً بھانپ گیا ہے کہ گز شتہ صدی میں اتحاد کے نام پر یورپ کا کیسے استحصال ہوتا رہا ہے؟! گویا دونوں یورپ ایک ہونا چاہتے ہیں، لیکن امریکا راستے کا پتھر ہے۔ روس کی حالیہ حکمتِ عملی کارگر ہوتی نظر آرہی ہے۔

Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan

Mirza Muhammad Ramzan

Related Articles

تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر

نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …

Mirza Muhammad Ramzan Nov 13, 2023

Asian Powers and Afghanistan of Future

Asian Powers and Afghanistan of the Future Mirza Muhammad Ramzan, Islamabad. According to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan, "During the Mughal Empire…

Mirza Muhammad Ramzan Sep 10, 2021

استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ

استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …

Mirza Muhammad Ramzan Aug 11, 2021

عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں

(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…

Mirza Muhammad Ramzan Sep 11, 2022