عہد ِنبویؐ اور خلافت ِراشدہ کی طرح اُموی دورِ خلافت میں بھی مسلمان عبادات کے پابند تھے۔ مذہبی شعائر سے کوئی بھی بے اِلتفاتی نہیں کرتا تھا۔ شہر، قصبے، گاؤں وغیرہ میں مساجد تھیں، جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔
دورِ بنواُمیہ میں حدیث و فقہ، شعر و ادب کے علمی حلقے منعقد ہوتے، جہاں علمی اشتیاق رکھنے والے حضرات اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے جوق در جوق شریک ہوتے۔ اُموی دور میں شام، عراق اور حجاز اسلامی فقہ کے اہم مراکز تھے۔ شام اور عراق ان دونوں جگہوں سے مشرقی عالمِ اسلام خصوصاً ہندوستان کا انتظامی تعلق تھا۔ اس لیے یہاں شام و عراق کے فقہی مسلک کو ان ملکوں میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ عراق (کوفہ) میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے سلسلے میں حضرت ابراہیم نخعیؒ (۹۶ھ)، حماد بن سلیمانؒ (۱۱۰ھ)، امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) وغیرہم حضرات کتاب و سنت کی روشنی میں احکام مرتب کر رہے تھے اور شام میں امام مکحولؒ (۱۱۳ھ)، امام ابن شہاب زہریؒ (۱۲۴ھ) اور امام اوزاعیؒ (۱۵۹ھ) اپنے اپنے انداز سے حدیث و فقہ کی تعلیم و تدریس میں مشغول تھے۔ حجاز میں فقہائے سبعہ اور ان کے شاگرد و منتسبین اسلامی فقہ کی تشریح و تدوین کی خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ ان علما کو حکومت ِوقت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔
لسانی و ادبی علوم کے حوالے سے بھی بنواُمیہ کا دور مثالی تھا۔ خود اُموی خلفا و اُمرا عربی روایات کے حامل تھے۔ زبان و ادب کا پورا پورا لحاظ کرتے۔ ولید بن عبدالملک کی عربیت پر دسترس قدرے کمزور تھی تو اُس کے والد عبدالملک بن مروان نے سرزنش کرتے ہوئے اُسے کہا: ’’انّہٗ لا یلی العرب إلاَّ من یحسن کلامہم‘‘ (وہی شخص عربوں کا والی و امیر ہوسکتا ہے، جو حسنِ کلام رکھتا ہو)۔ (فہرست ابن الندیم، ص 318)۔ اس سلسلے میں محمد بن قاسمؒ کا ایک دلچسپ واقعہ بھی علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ راجہ داہر کے ساتھ جب جنگ ہوئی تو کعب بن مخارق اس جنگ میں محمد بن قاسمؒ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے حجاج بن یوسف کو جنگ کی ہولناکی کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتلایا کہ جب گھمسان کا رَن پڑا اور تلواریں اور نیزے ایک دوسرے پر ٹوٹنے لگے تو محمد بن قاسمؒ نے اپنے ایک ساتھی سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا: ’’أطْعِمْنِی المَائَ‘‘ یعنی گھبراہٹ کی وجہ سے ’’أسْقِنِیْ‘‘ (مجھے پلایئے) کے بجائے اُن کی زبان سے ’’أطْعِمْنِی‘‘ (مجھے کھلائیے) نکل گیا۔ تو حجاج نے کہا (حجاج کی زبان پر دسترس و مہارت ملاحظہ فرمائیے): یہ جملہ عربیت کے لحاظ سے غلط نہیں۔ قرآن مجید میں ہے: ’’إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنهُ فَلَيسَ مِنّي وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّي(249:2) یعنی اللہ تمھیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے۔ جو شخص اس سے پانی پئے گا، وہ میری جماعت سے نہیں اور جو پانی نہیں پئے گا، وہ میری جماعت سے ہے۔ قرآن مجید میں بھی ’’ومن لم یطعمہ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ گویا ’’أسْقِنِیْ‘‘ کی جگہ ’’أطْعِمْنِی‘‘ کہنا درست ہے۔ اُموی دورِ خلافت میں حدیث و فقہ کے علوم کے ماہرین کے ساتھ ساتھ ادبی علوم کے بڑے بڑے علما و فضلا موجود تھے۔
Tags
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔