امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جب تم نے (ان چاروں اَخلاق؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کے) اصول جان لیے، اب ہم ان اَخلاق کی بنیاد پر بعض تفصیلات کو بیان کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔
(1) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی جماعت‘ ذکر اللہ کرنے کے لیے نہیں بیٹھتی، مگر یہ کہ انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور انھیں اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 2261) میں کہتا ہوں کہ: اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہونے والے مسلمانوں کا اجتماع بے شک اللہ کی رحمت اور اُس کی سکینت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور یہ کہ انھیں فرشتوں کے قریب کردیتا ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مُفرِّدون‘‘ (بوجھ کے بغیر دوڑنے والے لوگ) سب سے آگے بڑھ گئے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ! ’’مُفرِّدون‘‘ کون ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی عورتیں‘‘۔ (صحیح مسلم، مشکوٰۃ، حدیث: 2262)۔
میںکہتا ہوں کہ: ذکر کرنے والے لوگوں کو ’’مُفرِّدون‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس لیے کہ ذکر اللہ سے اُن کے جسم پر حیوانیت کے تقاضوں اور گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے (ان کے لیے بوجھ سے ہلکا پھلکا ہو کر دوڑنا اور چلنا آسان ہوجاتا ہے)۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’میرا بندہ میرے بارے میں جو ظن اور گمان رکھتا ہے، میں اُس کے مطابق اُس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پس اگر وہ اکیلے میں مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اور جب وہ مجھے کسی جماعت اور مجلس میں شامل ہو کر یاد کرتا ہے تو میں اُس کی مجلس سے زیادہ بہتر (فرشتوں کی) مجلس میں اُس کا تذکرہ کرتا ہوں‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ، حدیث: 2264)
میں کہتا ہوں کہ: انسان کی وہ جبلت اور فطرت، جس سے اُس کے اَخلاق اور علوم پیدا ہوتے ہیں اور وہ کیفیات اور حالتیں جنھیں انسانی نفس حاصل کرتا ہے، اللہ کی خاص رحمتوں کو نازل کرنے میں مخصوص کردار ادا کرتی ہیں:
(i) پس ایسا باوقار آدمی جو ’’سمیحُ الخُلق‘‘ یعنی سماحت کا خُلق رکھتا ہے اور اس میں لوگوں کی چھوٹی اور حقیر غلطیوں کو پکڑنے کی عادت نہیں ہوتی۔ وہ جب اپنے ربّ کے بارے میں یہ گمان اور یقین رکھتا ہے کہ وہ اُس کے گناہوں کو معاف کردے گا اور میری ہر چھوٹی اور انتہائی حقیر چیزکو نہیں پکڑے گا تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی عزت اور وقار کا ہوتا ہے۔ ’’سماحت‘‘ پر مبنی اس کی یہی باوقار اُمید اُس کے گناہوں کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
(ii) ایسا آدمی جو ’’شَحِیحُ الخُلق‘‘ یعنی بخل پر مبنی تنگ نظری کا خُلق رکھتا ہے، وہ اپنے ربّ کے بارے میں تنگ نظری پر مبنی یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی ہر چھوٹی اور انتہائی حقیر چیز کو ضرور پکڑ لے گا۔ تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کے ساتھ انتہاپسندوں کی طرح کا معاملہ کرتا ہے۔ وہ اُس کے صغیرہ گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔ ایسے آدمی کا دنیاوی معاملات کی نسبت آخرت سے متعلق اللہ کے بارے میں یہ زیادہ سخت تصور اُس کی موت کے بعد اُس کا گھیراؤ کرلیتا ہے اور اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔
حدیث میں ان دونوں افراد سے متعلق جو فرق بیان کیا گیا ہے، یہ اُن چھوٹے اُمور اور صغیرہ گناہوں کے بارے میں ہے کہ جن کے بارے میں ’’حظیرۃ القدس‘‘ میں مقرر کردہ شریعت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا۔ جہاں تک کبیرہ گناہوں اور اُسی طرح کے بڑے جرائم سے متعلق شرعی احکامات ہیں، وہاں اس فرق پر مبنی معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سزا کا مستحق ہوگا۔ صرف اجمالی طور پر یہ ہوسکتا ہے کہ اچھے کاموں پر کسی فرد کو مقررہ نیکیوں سے زیادہ اچھا بدلہ مل جاتا ہے۔ یا کسی کی کچھ اچھائیوں کی وجہ سے اُس کے کسی گناہ کے عذاب میں تخفیف اور کمی ہوسکتی ہے۔
اس حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ’’أنا معہٗ‘‘ (میں اُس ذکر کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہوں)، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذکر کو قبول کرلیا۔ اس میں اُس کو عزت کے ساتھ حظیرۃ القدس میں داخل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
پھر جب کوئی انسان اللہ کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے اور اُس کی نعمتوں میں غور و فکر کرتا ہے تو اُس کا انعام اور بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف چلنے میں حائل اُس کے تمام پردے اور حجابات اُٹھا دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان سلوک طے کرتے ہوئے اُس ’’تجلیٔ الٰہی‘‘ کے قریب پہنچ جاتا ہے، جو ’’حظیرۃ القدس‘‘ میں قائم ہے۔
اگر کوئی انسان کسی مجلس میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، اس کا اہم مقصد ہو کہ وہ اللہ کے دین کی اشاعت کر رہا ہے اور اس کے دین کو غالب کرنا ہے، تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی محبت ’’ملائِ اعلیٰ‘‘ (فرشتوں کی مقدس جماعت) کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ جو کہ ہر وقت ایسے لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور اُن پر برکات نازل کرتے ہیں اور پھر اُن کے لیے زمین میں لوگوں میں مقبولیت نازل کی جاتی ہے۔
کتنے ہی ’’عارِف باللّٰہ‘‘ (اللہ کی معرفت حاصل کرنے والے) ایسے لوگ گزرے ہیں، جو معرفتِ الٰہی کے مقام کو حاصل کرلیتے ہیں، لیکن انھیں دنیا میں زمین میں مقبولیت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن کا ملائِ اعلیٰ میں تذکرہ ہوتا ہے۔
اور کتنے ہی اللہ کے دین کی مدد کرنے والے اور اس کے غلبے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنے والے لوگ گزرے ہیں، جن کو دنیا میں بڑی عظیم مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے اور اُن پر بڑی برکات نازل ہوئی ہیں، لیکن معرفت ِالٰہی کے حوالے سے اُن کے حجابات اور پردے دور نہیں ہوئے‘‘۔
(باب الاذکارِ و ما یتعلّق بھا)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (3)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چھٹی حدیث:) …
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…
اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کی رُکاوٹیں
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں: …