امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں:
(1) حِجابُ الطّبع (انسان کی طبیعت کے تقاضوں سے پیدا ہونے والا حجاب)
(2) حِجابُ الرّسم (انسان کے ماحول میں موجود رسم و رواج کا حجاب)
(3) حِجابُ سُوئِ المعرفہ (حقائقِ کائنات کو سمجھنے میں بدفہمی کا حجاب)
(1) حِجابُ الطّبع:اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان میں کھانے پینے اور نکاح کے تقاضے پائے جاتے ہیں اور اس کا دل طبعی تقاضوں کے احوال و کیفیات کی سواری بنا رہتا ہے۔ مثلاً حزن و غم، خوشی اور نشاط، غضب اور خوف وغیرہ وغیرہ۔ انسان ہر وقت ان میں مشغول رہتا ہے۔ جب بھی ان تقاضوں کے مطابق کوئی حالت اس پر طاری ہوتی ہے تو وہ اس کے حصول کے اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اُس کی علمی قوتیں ان تقاضوں کی مناسبت سے اس حالت کے تابع ہوجاتی ہیں۔ انسانی نفس اُسی میں غرق ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس طرح وہ باقی تمام چیزوںکو بھلا بیٹھتا ہے۔ جب وہ نفسانی تقاضے کی اس حالت سے فارغ ہوتا ہے تو اس کا اثر اور رنگ اس کے نفس پر باقی رہ جاتا ہے۔ اسی طرح دن رات گزرتے رہتے ہیں اور وہ انھیں تقاضوں کے پورا کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اَور کمال کے حصول کے لیے اپنے آپ کو فارغ نہیں کر پاتا۔
کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے قدم نفس کے ان طبعی تقاضوں کی دلدل میں کچھ اس طرح دھنس جاتے ہیں کہ طویل عمر کے باوجود بھی وہ اُس سے نکل نہیں پاتے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اُن پر اُن کے طبیعی تقاضوں کے اثرات بہت غالب ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُس کی گردن سوسائٹی کی اجتماعی رسومات اور عقل کے تقاضوں کے دائرے سے بھی آزاد ہوجاتی ہے۔ کسی ملامت کرنے والے کی ڈانٹ ڈپٹ کا بھی اُس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس حجابِ طبع کو ’’حجابِ نفسانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
(2) حِجابُ الرّسم: لیکن وہ آدمی جس کی عقل بہتر ہو، اُس کی غفلت دور ہوچکی ہو، وہ کسی وقت یہ فرصت حاصل کرلیتا ہے کہ اُس کے طبعی تقاضے اور حالات کم ہوجائیں۔ وہ ان طبعی تقاضوں کے ساتھ ساتھ دیگر احوال کی گنجائش پیدا کرلیتا ہے۔ وہ اپنے طبعی تقاضوں کو کنٹرول کرکے دیگر علوم کے فیضان کا مستحق بن جاتا ہے۔ وہ اپنی عقلی اور عملی قوتوں کے اعتبار سے نوعِ انسانی کے کمال کے حصول کا شوق اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔ جب اُس کی اس مقصد کے لیے آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی قوم کو دیکھتا ہے، اپنی قوم کے ارتفاقات، عادات و اَطوار، فخر و مباہات، فصاحت اور بلاغت سے متعلق فضائل اور پیشوں کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں اپنی قوم کی ان عادات و رسومات کی عظمت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ پورے عزم اور کامل ارادے سے انھیں قبول کرتا ہے اور اپنی ہمت اُن کے حصول میں لگا دیتا ہے۔ اس حجاب الرسم کو ’’دنیاوی حجاب‘‘ کہا جاتا ہے۔
(3) حِجابُ سُوئِ المعرفہ:لوگوں میں سے کچھ انسان ہمیشہ اس حجابِ دنیا میں مستغرق رہتے ہیں، یہاں تک کہ انھیں موت آجاتی ہے۔ اس وقت اس کے تمام دنیاوی فضائل سِرے سے ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ دنیاوی رسومات اور فضائل بدن اور دنیاوی ساز و سامان کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ مرنے کے بعد انسانی نفس بدن اور دنیاوی عادات سے فارغ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہوتی ہے، جیسا کہ (قرآن حکیم میں) ایک باغ والے کی مثال دی گئی ہے کہ اُسے آگ کے بگولے نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ (القرآن 266:2) یا ایسی راکھ بنا دیا کہ آندھی کے طوفان کی تیز ہواؤں نے اُسے اُڑا کر رکھ دیا ہو۔ (القرآن 18:14)
اگر کوئی انسان بہت زیادہ چاک و چوبند اور بڑا ذہین ہو اور کسی منطقی دلیل، یا کسی عوامی خطاب اور بیانیے، یا شریعت کی اتباع سے اُسے اس بات کا یقین ہوجائے کہ بے شک اُس کا ایک ربّ ہے۔ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ اُن کے تمام اُمور کا انتظام کرنے والا ہے۔ وہ ان پر اپنی تمام نعمتوں کا انعام کرنے والا ہے۔ پھر اُس کے دل میں اپنے ربّ تبارک و تعالیٰ کی طرف جھکاؤ اور میلان پیدا ہوجائے، اُس سے محبت رکھنے لگے اور اُس کا تقرب حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کرلے، اپنی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کو اُسی کے سامنے پھیلائے، اپنے آپ کو اُسی کے سپرد کردے۔ ایسے انسانوں کی دو قسم ہیں:
(1) ایک وہ جو اللہ کی معرفت کے حوالے سے بالکل صحیح ہوتے ہیں۔
(2) دوسرے وہ جو اس سلسلے میں معرفت کی خرابی اور بدفہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے تعلق کے حوالے سے دو بڑی غلطیاں ہیں:
(1) اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں مخلوق کی صفات کا اعتقاد رکھے (تشبیہ)۔
(2) مخلوقِ خدا میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا اعتقاد رکھے (شرک)۔
پہلی غلطی ’’تشبیہ‘‘ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غائب (اللہ تبارک و تعالیٰ) کو حاضر (مخلوقِ خدا) پر قیاس کرنا۔ دوسری غلطی ’’شرک‘‘ ہے۔ اس کا سبب مخلوق میں سے کسی میں خلافِ عادت کسی معجزے کے آثار دیکھنا۔ پھر یہ گمان کرنا کہ اس معجزے کو اس مخلوق نے ہی پیدا کیا ہے اور یہ اُس کا ذاتی کمال ہے۔
مناسب یہ ہے کہ تم تمام انسانوں کے احوال و خواص کے اعداد و شمار جمع کرو۔ پھر جائزہ لو کہ میں نے جو کچھ تمھیں حجابات کے حوالے سے مذکورہ بالا خبر دی ہے ، کیا اس میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ میرا تمھارے بارے میں یہ گمان ہے کہ تمھیں ایسا کوئی فرق نہیں ملے گا، بلکہ ہر انسان __ وہ کسی شریعت کا ہی پابند کیوں نہ ہو __
(1) کسی نہ کسی وقت ’’حجابِ طبع‘‘ میں ضرور مستغرق رہتا ہے، کم ہو یا زیادہ ہو۔ اگرچہ وہ رسمی طور پر صحیح اعمال ہی کیوں نہ کرتا ہو۔
(2) وہ کسی نہ کسی وقت ’’حجابِ رسم‘‘ میں بھی مستغرق رہتا ہے۔ اس کے نزدیک اُس وقت اہم بات اپنی قوم کے عقل مندوں کی طرح گفتگو، رہن سہن، اَخلاق اور معاشرت میں مشابہت اختیار کرنا ہوتا ہے۔
(3) وہ (’’حجابِ سوئِ معرفت‘‘ کی وجہ سے) بعض اوقات اپنے آباؤ اجداد سے سنی سنائی بدفہمی کی باتوں کی طرف متوجہ رہتا ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ اور کائنات میں اُس کی تدبیرِ غیبی کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ و اللہ اعلم
(باب الحُجُبِ المانعہ عن ظہورِ الفطرۃ)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جب تم نے (ان چاروں اَخلاق؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کے) اصول ج…