امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چھٹی حدیث:)
(6) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’کیا میں تمھارے اعمال میں سے تمھارا سب سے بہتر عمل نہ بتلاؤں؟ وہ تمھارے بادشاہ(ربّ تبارک و تعالیٰ) کے نزدیک سب سے پاکیزہ عمل ہے۔ اور وہ اُن میں سے تمھارے لیے سب سے اونچے درجے والا عمل ہے۔ وہ عمل تمھارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ وہ عمل تمھارے اپنے دشمنوں سے لڑنے سے بھی بہتر ہے کہ تم اُن کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ہاں ضرور بتلائیے!آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ کا ذکر کرنا‘‘۔ (ترمذی، مشکوٰۃ، حدیث: 2269)
میں (شاہ ولی اللہ) کہتا ہوں کہ اعمال کی افضلیت مختلف اعتبار سے ہوتی ہے۔ انسانی نفس کی عالمِ جبروت کی طرف توجہ کرنے کے اعتبار سے ذکر اللہ سے بڑھ کر کوئی اَور عمل افضل نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے پاکیزہ نفوسِ قدسیہ جنھیں زیادہ ریاضتوں اور مشقتوں کی ضرورت نہیں ہوتی، انھیں ہمیشہ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہنا ہوتا ہے۔
(7) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو آدمی کسی جگہ بیٹھا اور اُس جگہ پر اُس نے اللہ کا ذکر نہ کیا تو اللہ کے حوالے سے وہ جگہ اُس کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ اور جو آدمی اپنے بستر پر لیٹا اور اُس میں اُس نے اللہ کا ذکر نہیں کیا تو یہ بھی اللہ کی جناب کے حوالے سے بندے کے لیے بڑے نقصان کی بات ہے‘‘۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ، حدیث: 2272)
(8) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی قوم کسی ایسی مجلس سے نہیں اُٹھتی کہ جس میں انھوں نے اللہ کا ذکر نہ کیا ہو تو وہ ایسے اُٹھے، جیساکہ گدھے کا مردار جسم ہے۔ اور وہ مجلس اُن کے لیے باعثِ حسرت اور ندامت ہوگی‘‘۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ، حدیث: 2273)
(9) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ذکر کے بغیر کثرت سے گفتگو نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ذکر اللہ کے بغیر کثرت سے کلام کرنا‘ دل کو سخت بنا دیتا ہے۔ اور وہ فرد اللہ سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے، جس کا دل سخت ہے‘‘۔ (ترمذی، مشکوٰۃ: 2276)
میں (شاہ ولی اللہ) کہتا ہوں کہ جو آدمی ذکر کی مٹھاس پا لیتا ہے، اور یہ جان لیتا ہے کہ کیسے اللہ کے ذکر سے اُسے اطمینان حاصل ہوگا، اور کیسے ذکر کرنے سے اُس کے دل پر سے حجابات اور پردے دُور ہوں گے۔ یہاں تک کہ اُس نے گویا کہ اللہ کو دیکھ لیا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ایسا آدمی دُنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور بیوی بچوں اور ساز و سامان میںاُلجھ جاتا ہے تو یہ چیزیں اُسے اللہ کا ذکر بھلا دیتی ہیں۔ اور جو اُس نے ذکر سے لذت اور حلاوت پائی تھی، وہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور جو اُس نے مشاہدۂ باری تعالیٰ کیا تھا، اُس راستے میں پردے حائل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کی غفلت اور خصلت انسان کو جہنم اور ہر شر کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں اُس کے لیے بڑے نقصان کا باعث ہیں۔ اس طرح کے کئی نقصانات جمع ہوجائیں تو پھر اُس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس طرح کے تمام نقصانات کا پورا پورا علاج فرمایا ہے۔ اس طرح پر کہ آپؐ نے انسانی زندگی کی ہر حالت کے بارے میں ایک مناسب ذکر شرعی طور پر بیان کیا ہے، تاکہ وہ غفلت کے زہر کو دُور کرنے میں تریاق ثابت ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے ان اذکار کے فائدوں پر متنبہ کیا ہے اور ان اذکار کے بغیر لاحق ہونے والے نقصانات کی وضاحت بیان فرمائی ہے۔
(حضور ﷺ کے بیان کردہ دس مسنون اذکار)
جاننا چاہیے کہ ذکر اللہ کے الفاظ مقرر کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی، تاکہ کوئی آدمی اپنی ناقص عقل سے ذکر کے خود ساختہ الفاظ مقرر کرنے کی غلطی سے محفوظ رہے۔ ورنہ تو وہ اللہ کے ناموں میں اِلحاد کا مرتکب ہوگا، یا اللہ تبارک و تعالیٰ کے بلند مقام کو پورا حق نہیں دے سکے گا۔ اس سلسلے میں سب سے بہترین اور عمدہ اذکار وہ ہیں، جو نبی اکرم ﷺ نے سنت قرار دیے ہیں۔ یہ اذکار دس ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ذکر میں ایک خاص راز، مصلحت او رفائدہ ہے، جو دوسرے ذکر میں نہیںہے۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ نے ہر ایک موقع کی مناسبت سے یہ مسنون اذکار بیان کیے ہیں، تاکہ ان اذکار کے تمام رنگ ایک انسان میں جمع ہوجائیں۔
یہ بات بھی ہے کہ صرف ایک ہی ذکر پر ٹھہرے رہنا اُسے عام انسانوں کے حق میں صرف زبانی لقلقہ بنا کر رکھ دیتا ہے، جب کہ ایک ذکر سے دوسرے ذکر کی طرف سے متوجہ ہونے سے انسانی نفس متنبہ ہوتا ہے اور غافل انسانوں کو جگانے کا باعث بنتا ہے۔
(1۔ تسبیح): ان اذکار میں سے پہلا ذکر ’’سبحان اللّٰہ‘‘ ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے اللہ کو ہر قسم کے عیوب، نقائص او رپست چیزوں سے پاک اور بلند تر سمجھنا ہے۔
(2۔ تحمید): ان اذکار میں سے دوسرا ذکر ’’الحمد للّٰہ‘‘ ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ تمام اوصاف او رتمام کمالات کو ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ثابت کیا جائے۔
جب یہ دونوں ذکرایک کلمے میں جمع ہوجائیں تو یہ انسان کی اپنے ربّ کی معرفت بیان کرنے میں سب سے فصیح اور خوب صورت تعبیر ہے۔ اس لیے کہ انسان اللہ کی معرفت کے حوالے سے اس سے زیادہ کی استطاعت نہیں رکھتا، مگر اس پہلو سے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کو اُن تمام نقائص سے پاک ثابت کرے، جو ہم اپنے اندر پاتے ہیں۔ اور وہ تمام کمالات ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ثابت کریں کہ جو ہم اپنے اندر بہ طور کمال کے مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب ذکر اللہ کی یہ صورت کسی انسان کے صحیفے میں پختہ ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُس پر ایسی کامل اور پوری معرفت ظاہر ہوتی ہے، جس سے اللہ کے کمالات پورے طور پر سامنے آتے ہیں اور یوں قربِ الٰہی کے حوالے سے اُس کے لیے ایک بڑا عظیم دروازہ کھل جاتا ہے‘‘۔ (باب الاذکارِ و ما یتعلّق بھا)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جب تم نے (ان چاروں اَخلاق؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کے) اصول ج…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…
اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے راستے کی رُکاوٹیں
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ (اَخلاقِ اربعہ کو حاصل کرنے میں) تین بڑے حِجابات ہیں: …