عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی گئی۔ عبدالرحمن الداخل کے بعد ابوالولید ہشام اور ان کے بعد حکم بن ہشام حکمران بنے۔ اور نہایت کامیابی کے ساتھ ملک کا نظم و نسق چلایا۔ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں کہ: ’’ہشام کے دورِ حکومت میں بہت سے علاقے فتح ہوئے۔ سلطنت کی ترقی کے کاموں کی وہ خود نگرانی کرتے۔ اس کے پاس چند دیکھنے والی آنکھیں تھیں، جو لوگوں کے حالات سے ان کو مطلع کرتی تھیں۔ اس نے اَندلُس کو اپنے جانشینوں کے لیے اچھی حالت میں چھوڑا‘‘۔ (تاریخ ابن خلدون، ج:4، ص: 125، 127)
ان کے بعد عبدالرحمن ثانی اندلس کے امیر بنے۔ ساحلی ممالک ہونے کی مناسبت سے انھوں نے جہاز سازی کو خاصی ترقی دی۔ سواحلِ اندلس کے بحری ماہرین کو جمع کیا۔ ان کے معاوضوں میں اضافہ کیا۔ سمندری حالات سے آگاہی کے آلات مہیا کیے، جس سے ملکی دفاع مضبوط ہوا۔ اس کے زمانے میں اندلس کا سالانہ خراج 6 لاکھ دینار سے 10 لاکھ دینار تک پہنچ گیا تھا۔
عبدالرحمن ثانی کو علمِ دین، علومِ عقلیہ اور ادب و شعر سے خاصی مناسبت تھی۔ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں: وہ ادیب و شاعر تھا۔ علومِ شرعیہ و علومِ فلسفہ کا عالم تھا۔ اس لیے وہ اہلِ علم اور اَربابِ شعر و ادب کی عزت افزائی کرتا اور انھیں عطایا و ہدایات سے نوازتا۔ ان کے عہد میں اندلس میں ممتاز اہلِ علم و فضل جمع تھے، جن سے دینی و عصری علوم کی شمعیں روشن ہوئیں۔ شیخ غازی بن قیسؒ اندلس میں علم کے پروانوں کے لیے شمع کی حیثیت رکھتے تھے۔ قرطبہ میں درس و تدریس کے منصب پر فائز تھے۔ مزید حصولِ علم کے لیے مشرق کا سفر اختیار کیا۔ مدینہ منورہ پہنچے اور امام مالکؒ سے ’’مؤطا‘‘ کی سماعت کی۔ قرأت کے امام نافع بن ابونعیمؒ سے علم قرأت حاصل کیا۔ اندلس کے اہلِ علم میں ان کو دو حیثیتوں سے برتری حاصل ہے: ایک تو یہ کہ ان ہی کے ذریعے ’’مؤطا‘‘ پہلی مرتبہ اندلس میں پہنچی۔ دوسرے یہ کہ امام نافعؒ کی قرأت بھی یہی بزرگ اندلس میں لائے۔
عبدالرحمن ثانی جمالیات سے بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے، جس کے اثرات اندلس کی مدنی زندگی میں نمایاں ہوئے۔ چناں چہ عام تہذیب و معاشرت میں نت نئے تکلّفات اور شان و شکوہ ظاہر ہوئے۔ عبدالرحمن نہایت پابند ِصوم و صلوٰۃ، شرعی اوامر و نواہی کا پاس و لحاظ رکھتا تھا۔ وہ اپنی انتظامی صلاحیتوں اور فضائلِ حمیدہ کی وجہ سے عوام کی نظروں میں بہت محبوب تھا۔ اس کا دورِ حکومت اکتیس سال اور تین مہینوں پر مشتمل ہے۔
عبدالرحمن ثانی نے وسط ماہ ربیع الثانی۲۳۸ھ / 852ء میں باسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔
Tags
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…