وَظَلَّلنا عَلَيكُمُ الغَمامَ وَأَنزَلنا عَلَيكُمُ المَنَّ وَالسَّلوىٰ ۖ كُلوا مِن طَيِّباتِ ما رَزَقناكُم ۖ وَما ظَلَمونا وَلٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ
(اور سایہ کیا ہم نے تم پر اَبر کا اور اُتارا تم پر مَن اور سلویٰ۔ کھاؤ پاکیزہ چیزیں، جو ہم نے تم کو دیں۔ اور انھوں نے ہمارا کچھ نقصان نہ کیا، بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔)
گزشتہ آیات میں یہ واضح کیا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی اَخلاقی تربیت کے لیے بڑی کوشش کی۔ یہ تذکرہ آیت نمبر 49 سے لے کر آیت نمبر 56 تک کیا گیا ہے۔ زیرنظر آیت سے ان کی اجتماعی تربیت سے متعلق اُمور کا بیان ہے۔
وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ایک بڑا صحرا آتا ہے۔ اس صحرائی زندگی میں بنی اسرائیل کی اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کیا گیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ فرماتے ہیں: ’’جب فرعون غرق ہوچکا اور بنی اسرائیل بحکمِ الٰہی مصر سے شام کو چلے تو جنگل میں اُن کے خیمے پھٹ گئے۔ گرمی آفتاب کی ہوئی تو تمام دن ابر رہتا اور اناج نہ رہا تو مَن و سلویٰ کھانے کے لیے اُترتا‘‘۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے انسانی معاشرے کی اجتماعی ترقی کے چار ارتفاقات بیان کیے ہیں۔ تہذیب ِشخصی کے ساتھ پہلی اجتماعیت صحرائی زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ انسان کو اس مرحلے پر گرمی سردی سے بچاؤ کے طریقے سوچنے پڑتے ہیں اور کھانے پینے سے متعلق اُمور اختیار کرنے ہوتے ہیں۔ فرعون کی غلامی سے آزادی کے بعد بنی اسرائیل کی تربیت کا مرحلہ شروع ہوا تو انھیں صحرائی زندگی سے متعلق اُمور سکھانا ضروری تھے۔ چاروں طرف گرمی اور دھوپ کی موجودگی میں جہاں بنی اسرائیل کے افراد کا اجتماع ہوتا، وہیں ایک بادل اُس اجتماع پر سایۂ فگن ہوتا۔ اس طرح غلامی کے زمانے میں جو انفرادیت اُن میں پیدا ہوچکی تھی، اُسے دور کرکے اجتماع میں رہنے کی صلاحیت اور استعداد اُن میں پیدا کی گئی۔ انفرادیت کی صورت لیے ہوئے انسان آپس میں لڑتے بھڑتے ہیں۔ غلامی کے زمانے میں اُن کی عادات ایسی ہی تھیں۔ یہاں انھیں اکٹھے رہنے کے طور طریقے سکھانے کا انتظام کیا گیا۔ کسی قوم کا اس طور پر اجتماعی زندگی کا خوگر ہونا‘ بہت بڑا اِنعام ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر ہوا۔
وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی: اجتماعی زندگی میں اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کھانے پینے کا نظام افراد کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے طور پر وجود میں آئے۔ انفرادی مفادات کے لیے ذخیرہ اندوزی، اجتماعی نظام کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بنی اسرائیل پر یہ بھی انعام ہوا کہ اُن کے کھانے پینے کی ضروریات کا اجتماعی نظام من و سلویٰ کی صورت میں کیا گیا۔ من و سلویٰ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں: ’’مَن‘‘ ایک چیز تھی شیریں، دھنیے کے سے دانے، ترنجبین کے مشابہ، رات کو اوس میں برستے، لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے۔ صبح کو ہر ایک اپنی حاجت کے موافق (وہاں سے) اٹھا لیتا۔ اور ’’سَلوٰی‘‘ ایک پرندہ ہے جس کو بٹیر کہتے ہیں۔ شام کو لشکر کے گرد ہزاروں جمع ہوجاتے۔ اندھیرا ہوئے بعد پکڑ لاتے، کباب کر کے کھاتے۔ مدتوں تک یہی کھایا کیے‘‘۔ اس طرح صحرا کی سادہ زندگی میں بنی اسرائیل کے پورے اجتماع کے لیے یکساں طور پر کھانے اور پینے کا نظام اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بنایا گیا۔ اس صورت میں جو کچھ من و سلویٰ جمع ہوتا، ہر آدمی اپنی ضرورت اور حاجت کے مطابق اُس میں سے لے لیتا۔ حاجت سے زائد جمع کرنے کی ممانعت کی گئی تھی۔ گویا عدل و انصاف کا ایک اجتماعی نظام بنایا گیا، جس سے تمام لوگ مجموعی طور پر فیض یاب ہوتے رہیں۔
کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف سے اُن کے رزق کا انتظام کیا کہ تکلیف، مشقت اور گرمی سے بچاؤ کے لیے بادل کا انتظام، تاکہ امن سے رہیں اور کھانے پینے کے لیے من و سلویٰ کا انتظام، تاکہ بھوک اور پیاس کی مشقت سے بچیں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ ہم نے یہ جو پاکیزہ رزق دیا ہے، اس کو کھاؤ پیو، اجتماعی طور پر برتو، لیکن ذخیرہ اندوزی اور سرمایہ پرستی میں مبتلا نہ ہو۔ حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں: ’’اس لطیف و لذیذ غذا کو کھاؤ اور اس پر اکتفا کرو۔ نہ آگے کے لیے ذخیرہ جمع کرکے رکھو اور نہ دوسری غذا سے مبادلہ کی خواہش کرو‘‘۔ انفرادی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی کرنا بڑا ظلم ہے۔ اس سے اجتماعی زندگی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے اس سے منع کردیا گیا۔ دوسرے یہ کہ اجتماعی تربیت سیکھنے کے لیے انسانی زندگی کی غذا سادہ ہو اور سب کے لیے ہو۔ انفرادی ذائقے اور لذت کے لیے مخصوص غذاؤں کا مطالبہ تربیتی حوالے سے انتہائی نقصان دہ ہے۔ فوجی اور عسکری زندگی میں عمدہ اور سادہ غذا ہی دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ جدوجہد کرنے والا ایک فرد عیش پسند غذاؤں کا عادی ہوجائے تو وہ اجتماعی اور عسکری حوالے سے ناکارہ ہوجاتا ہے۔
وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَلٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ: تربیت سے متعلق ان اجتماعی ہدایات کی بنی اسرائیل نے خلاف ورزی کی۔ اس طرح انھوں نے اپنے اوپر خود ظلم کیا۔ حضرت شیخ الہند لکھتے ہیں: ’’اوّل ظلم یہ کیا کہ (مَن و سلویٰ) ذخیرہ کر کے رکھا تو گوشت سڑنا شروع ہوگیا۔ دوسرے (غذا کا) مبادلہ چاہا کہ مسور، گیہوں، ککڑی، پیاز وغیرہ ملے۔ جس سے طرح طرح کی تکلیف اور مشقت میں مبتلا ہوئے‘‘۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت کبھی نہ سڑتا‘‘ (بخاری: 3330)۔ گویا کہ اجتماعی زندگی سے بغاوت کے بنی اسرائیلی انداز کا اثر یہ ہے کہ آئندہ کے لیے ذخیرہ کیے ہوئے مال پر لعنت پڑنے لگی۔ آپؐ نے اس پر لعنت فرمائی ہے کہ: ’’المحتکر ملعون‘‘ (ذخیرہ اندوزی کرنے ولا ملعون ہے)۔ (سنن ابن ماجہ)
اس طرح بنی اسرائیل نے خود اپنا نقصان کیا اور پورے طور پر اس اجتماعی نظام کو قبول نہیں کیا۔ اس آیتِ مبارکہ میں یہی بات واضح کی گئی ہے۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …