[میانمار میں 2021ء کا فوجی انقلاب]
یورپ اور مغربی دنیا کے غلبے کے عہد نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہ دولت انسانی زندگی میں بے پناہ سہولتیں تو پیدا کیں، لیکن ان کے ثمرات کا حامل صرف ایک مخصوص گروہ رہا۔ اسی گروہ کی بالادستی کو قائم ودائم رکھنے کے لیے مختلف قسم کی حکمتِ عملیاں مرتب کی گئیں، جس سے یورپ کی قتل و غارت کی عادت پختہ ہوتی گئی۔ یورپین قوتوں نے بلا روک ٹوک ملکوں کے ملک صفحۂ ہستی سے مٹا دیے۔ جمہوریت کے نام پر آمریت کو مسلط کیے رکھا۔ خدا کا شاہکار انسان جو تمام مخلوقات میں اشرف اور محنت کا سب سے فعال عنصر تھا، اسے کیڑوں مکوڑوں سے بدتر بنادیا۔ ماضی میں ایشیائی غلبے کے عہد میں پیداوار کا دارومدار اگرچہ انسانی محنت اور آلاتِ پیداوار پر منحصر تھا، لیکن اس عہد نے انسانوں سے ان کی قوتِ محنت چھینی اور نہ ہی برلانے والے اوزار علاحدہ کیے۔ دونوں اسی کی ملکیت میں رہے، جس کے سبب معاشرے میں محنت کش طبقے کی عزت و وقار کا بھرم بھی قائم رہا۔
تاریخ کے مطابق عالمی غلبہ کسی خطے کے لیے مختص نہیں رہا۔ یہ دنیا میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ آج پھریہ عہد تبدیل ہونے جارہا ہے۔ یورپین ادارے اپنے مستقبل کے تقاضوں کے تحت ایشیا پیسفک کی طرف منتقل ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی حکمتِ عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایشیا پیسفک میں اپنے مورچے قائم کیے جائیں، تاکہ مستقبل میں اُبھرنے والی طاقتوں سے نبردآزما ہونے کا بھر پور بندو بست کیا جاسکے۔ روحِ عصر کو بھانپتے ہوئے ایشیا عالمی اُفق پر اُبھر رہا ہے۔ اس کی مقتدر قوتیں پیش بندی کرتی ہوئی کسی ایسی کھڑکی کے کھلنے اور آلہ کار قوت کو خود سر بننے سے روکنے کا تدارُک کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
یکم؍ فروری صبح 4 بج کر 10 منٹ پر ’ٹائم یونین‘ کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں فوج نے حکومت کا کنٹرو ل سنبھال لیا ہے اور ایک سال کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کی 2؍ فروری 2021ء کی رپورٹ کے مطابق ملکی لیڈر آنگ سان سوچی کو نظر بند کردیا گیا ہے۔ ملکی آئین کی شق نمبر 417 کے مطابق اگر ملک میں حالات نازک ہوجائیں تو آئین فوج کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ملکی انتظام سنبھال لے۔ کورونا وائرس اور نومبر میں الیکشن کو ملتوی نہ کرنے کی وجہ سے ایمرجنسی لگائی گئی ہے۔
8؍ نومبر 2020ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی سے سوچی کی حکومت نے پارلیمنٹ کی 476 نشستوں میں سے 396 پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ملتوی کرنے کو کہا تھا، جس کا نہ صرف الیکشن کمیشن نے انکار کردیا، بلکہ حکومت نے یکم؍ فروری کو اجلاس بھی طلب کرلیا تھا۔ 3؍ فروری 2021 کی ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ملکی حکمران آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ احتجاج کے بعد مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق فوج نے ان ریلیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان ریلیوں کے پیچھے 4 ڈاکٹروں کا ہاتھ ہے، جن کے نام صیغۂ راز میں رکھے گئے ہیں۔
چینی نیوز ایجنسی گلوبل انک (GLOBALink) کی یکم؍ فروری کی رپورٹ کے مطابق فوج نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے کہ وہ ایک سال کے بعد الیکشن کرائے گی۔ فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یونین الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو کی جائے گی اور گزشتہ سال نومبر 2020ء میں ہونے والے پارلیمنٹ کے انتخابات کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے گا۔ فرانس کی عالمی نیوز ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی 3؍ فروری 2021ء رپورٹ کے مطابق پولیس نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی طور پر مواصلاتی آلات درآمد کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ ٹی وی چینل کی 2؍ فروری 2021ء کی نشریات کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ: ’’عالمی برادری کو مل کر برما کی فوج پر اقتدار واپس منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے، سیاسی قیدیوں اور سول حکام کی رہائی کے لیے دبائو بڑھانا چاہیے‘‘۔ دوسر ی صورت میں اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
برما کا مسئلہ دیرینہ ہے۔ مغربی طاقتوں کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر خطوں میں عدمِ استحکام پید اکرنے کے لیے معروضی حالات کے تقاضوں کے مطابق سیاست کی آڑ میں تخریب کار جتھے تیار کیے جاتے ہیں، جنھیں پروان چڑھانے کے لیے مختلف طریقوں سے ان کی آبیاری کی جاتی ہے۔ آنگ سان سوچی کو بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد کے نام پر 1991ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ عالمی سطح پر اس کی جد وجہد کی پذیرائی کروائی گئی۔ ڈان نیوز کی 2؍ فروری 2021ء کی رپورٹ کے مطابق سوچی نے 1968ء میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور اس کے بعد امریکی ریاست نیویارک منتقل ہوگئیں۔ وہیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ تین سال تک اقوامِ متحدہ میں کام کرتی رہیں۔ 1988ء میں وطن واپس آنے پر اس کے لیے نئی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (National League for Democracy) بنوائی گئی۔ شروع میں حکومت مخالف تمام ریٹائرڈ فوجی افسران کی حمایت سے جدوجہد کی علامت کے طورپارٹی کی جنرل سیکرٹری بنوائی گئی۔ سرمایہ دار ملکوں نے تربیت دے کر انسانی حقوق کی بڑی عَلم بردار بناکر پیش کیا۔ جس کی پرورش پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے، مستقبل میں ان کی وصولی بھی ضروری ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ جو جان جوکھوں میں ڈال کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، وہ آمر اور ڈکٹیٹر کہلاتے ہیں۔ جو بیرونی قوتوں کی آلہ کاری کرتے ہوئے ’’چمک‘‘ سے ہاتھ چمکاتے ہیں، یورپ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے نام پر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے ملکوں میں معتبر، عزت دار اور جمہوریت پسند کے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔
Tags
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
Asian Powers and Afghanistan of Future
Asian Powers and Afghanistan of the Future Mirza Muhammad Ramzan, Islamabad. According to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan, "During the Mughal Empire…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…