چینی نیوز ایجنسی کی 7؍ جنوری2021ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’کیپٹل ہل‘ میں ہونے والے تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’عام امریکیوں کی طرح میں تشدد، لاقانونیت اور تباہی پھیلانے والوں کے خلاف ہوں‘‘۔ ٹرمپ نے ٹویٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’جنھوں نے قانون کی دھجیاں اُڑائی ہیں، انھیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی‘‘۔ صدر نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’اب چوں کہ کانگرس نے نتائج کی تصدیق کردی ہے، جس کے بعد 20؍ جنوری کو نئی انتظامیہ حلف اٹھا لے گی۔ لہٰذا میری پوری کوشش ہے کہ انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بلاروک ٹوک، پرامن، باقاعدہ اور قانون کے عین مطابق مکمل ہو‘‘۔ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’یہ لمحہ زخموں کو مندمل کرنے اور مفاہمت کا متقاضی ہے‘‘۔
دوسری طرف عالمی میڈیا ٹرمپ کو پُرتشدد اور قانون کی پرواہ نہ کرنے والا صدر بنا کر پیش کرہا ہے۔ جب کہ روسی اخبار ’’دی ماسکو ٹائم‘‘ کی 7؍ جنوری 2021ء کی رپورٹ کے مطابق: ’’امریکی انتخابات کا طریقۂ کار قدیمی ہے، جو دورِ جدید کے معیار ات پر پورا نہیں اترتا، اس لیے مسلسل خلاف ورزیوں کا شکار رہتاہے‘‘۔ یہ بات صحیح ہے کیوںکہ اسے وضع ہوئے 333 سال گزر چکے ہیں۔ انسانی معاشرہ صدیوں کا سفر طے کرچکا ہے۔ سماجی، معاشی اور سیاسی حالات بدل چکے ہیں۔ میڈیا اپنی طاقت کا لوہا منواچکا ہے۔ امریکی مقتدرہ کے نزدیک ان کے عوام ذہنی طور پر آج بھی ساڑھے تین سو سال پیچھے ہیں۔ انھیں اپنے نظامِ انتخاب اور عوام کی بالغ نظری پر اعتماد نہیں ہے۔ ان کا طریقۂ انتخاب اور عوام کا فہم اپنے ووٹ کا درست استعمال نہیں کرسکتا۔ وہ آج بھی کسی نااہل شخص کو ووٹ دے کر ملک کا حکمران بنا سکتے ہیں اور طریقۂ انتخاب میں اس عمل کو روکنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ امریکی مقتدرہ تکبر اور رعونت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ اسے اپنے عوام کی قوتِ فیصلہ پر بھروسہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ جس نے دنیا میں جنگ کے پھیلائو سے بہ ظاہر گریز کیا اورملکی چہرے کو قوموں کے ناحق خون سے مزید داغ دار ہونے سے بچایا، اسے ایک غیرمتوازن دما غ کا حامل قرار دے دیا گیا۔ مزید یہ کہ ٹرمپ کا سماجی رابطوں کا ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلا ک کردیا گیا۔
6؍ جنوری 2021ء کی رائٹر کی رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا کیپٹل ہل کی عمارت پر حملہ دکھایا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ کا منظر میڈیا پر نشر کیا گیا۔ یہ تأثر دیا گیا کہ بائیڈن کی جیت کا اعلان رکوانے کے لیے ٹرمپ کے حامی گزشتہ کئی روز سے واشنگٹن میں موجود تھے۔ کئی مسلح مظاہر ین دھاوا بول کر کانگرس کی عمارت میں گھس گئے۔ مظاہرین کی جانب سے کانگرس کی عمارت کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ ے گئے۔ آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی گئی۔ اراکین کانگرس نے ہال میں لیٹ کر مظاہرین کے حملے سے جان بچائی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک پولیس اہلکار اور 4 افراد کی ہلاکت اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔
سپیکر قومی اسمبلی (کانگرس) نینسی پلوسی نے 9؍ جنوری کو امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے کہ: ’’اگر ٹرمپ نے استعفیٰ نہ دیا تو ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ دوسری طرف امریکی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے 15 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان پر فردِ جرم عائد کرد ی گئی ہے۔ عالمی میڈیا امریکی صدر کو ہی موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، جس میں فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم دونوں شامل ہیں۔ مینوئیل میکرون نے کہا کہ: ’’آج جو واشنگٹن میں ہوا، وہ امریکی نہیں لگ رہے تھے‘‘۔ اس طرح برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ہنگامہ آرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’یہ انتہائی نازیبا مناظر تھے‘‘۔
دی ماسکو ٹائم کے مطابق سابق سوویت یونین کے صدر میخائیل گوباچوف نے کہا ہے کہ: ’’کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی‘‘۔ روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروفا (Maria Zakharova) نے کہا: ’’امریکا آج کے بعد دنیا میں دوبارہ ’’مثالی جمہوریت‘‘ کہلوانے کے قابل نہیں رہے گا‘‘۔ روسی کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ جیناڈی زوگانوف (Gennady Zyuganov) نے کہا ہے: ’’آج امریکا دنیا میں ا پنے ہی بوئے ہوئے کو کاٹ رہا ہے‘‘۔
پہلا امریکی صدر تھا جو پاگل قرار دے کر بچا لیا گیا، ورنہ یہ نظام اتنا ظالم اور خون خوار ہے کہ اس سے پہلے جن صدور نے امریکی مقتدرہ کے بنیادی نظریے سے انحراف کیا انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ’’تھاٹ کو‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جو صدور اس کی نذر ہوئے، ان میں ابراہیم لنکن (1865ئ)، جیمز اے گار فیلڈ (1881ئ)، ویلیم میکن لی (1901ئ) اور جان ایف کینیڈی (1963ئ) کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ 4 صدور ایسے تھے، جو اپنے ہی دفتر میں مردہ پائے گئے۔
ٹرمپ نے جس دن سے صدر کا حلف اٹھایا تھا، اسی روز سے اس کے خلاف پروپیگنڈا جاری تھا۔ پہلا الزام یہ تھا کہ اسے انتخابات میں روسی مداخلت کے نتیجے میں صدر بنا یا گیا۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک غیر سنجیدہ شخصیت کا حامل فرد تھا، جس سے سرزد ہونے والی حماقتوں کو نمایاں کرکے دکھایا گیا۔ اسے یورپ میں غیر مقبول بنایا گیا۔ اس کے فیصلوں کو احمقانہ قرار دیا گیا۔ آج جب اس کی صدارت کا دورانیہ ختم ہونے کو ہے تو اسے ذلیل کیا جارہاہے۔ کیپٹل ہل کی عمارت وہ ہے، جہاں ریاستی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، چہ جائے کہ وہاں دہشت گرد اور غنڈے داخل ہو کر نہ صرف توڑ پھوڑ کریں، بلکہ ریاستی اہل کار اور عوامی حلقوں کے افراد کو موت کی ابدی نیند سلادیں۔ یہ سارا عمل حساس ا داروں کے کردار کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ ان مناظر نے امریکی نظام کے کھوکھلے پن اور سفاکانہ کردار کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ روسی اخبار ’’پراودہ آریو‘‘ میں 2؍جنوری 2021ء کو چھپنے والے ایک انٹرویو میں نام چومسکی نے کہا ہے کہ: ’’اگر حکومتوں نے بڑی کمپنیوںپر توجہ دینے کے بجائے عوام کی خدمت کو مقدم رکھا ہوتا تو آج ہم ان حالات کا شکار نہ ہوتے‘‘۔
Tags
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
Asian Powers and Afghanistan of Future
Asian Powers and Afghanistan of the Future Mirza Muhammad Ramzan, Islamabad. According to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan, "During the Mughal Empire…
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…