اَندلُس کے مشہور علما میں سے ایک نام ور شخصیت علامہ ابن حزم اَندلُسیؒ کی ہے۔ آپؒ کی شخصیت ہمہ جہت تھی، جو بہ یک وقت محدث بھی ہیں اور مؤرخ بھی، شاعر بھی ہیں اور فقیہ بھی، بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور حکومت ِبنواُمیہ کے منصب ِوزارت پر فائز بھی۔ آپؒ کا پورا نام اس طرح سے ہے: ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم۔ آپؒ کے اجداد میں سے خلف بن معدان‘ فارس (ایران) سے اندلس آئے تھے۔ اس طرح آپؒ فارسی النسل ہیں۔ آپؒ رمضان المبارک کی آخری شب بروز بدھ۳۸۴ھ / 7؍ نومبر 994ء کو قرطبہ کے مشرقی محلے ’’المغیرہ‘‘ میں پیدا ہوئے اور 72 سال کی عمر میں۴۵۶ھ / 1064ء میں وفات پائی۔ آپؒ کے والد اور دادا اُموی خلیفہ ہشام ثانی کے زمانۂ خلافت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اس لیے ابتدائی زندگی خوش حالی میں گزری۔ آپؒ کے والد آپؒ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بڑے حساس تھے۔ اس لیے اس زمانے کے مشہور اہلِ علم سے تعلیم دلوائی۔ قرطبہ میں جب سیاسی خلفشار عروج پر تھا تو ان کو قرطبہ سے جلاوطن ہونا پڑا۔ وہ وزارت کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ جلاوطن بھی ہوئے اور قید کی سزائیں بھی بھگتنا پڑیں۔
علامہ ابن حزمؒ کا تصورِ اجتہاد: علامہ ابنِ حزمؒ کا اجتہاد اور استنباطِ مسائل کا منہج جمہور فقہا کے تصور سے الگ اور مختلف ہے۔ امام ابنِ حزمؒ کتاب و سنت کی نصوص کے ظاہری الفاظ کی بنیاد پر استنباطِ احکام کے قائل ہیں۔ وہ علل و حکمتوں کی تلاش و جستجو کے قائل نہیں، جب کہ جدید و معروضی مسائل کے حل کے لیے منصوص مسائل کی علت و حکمت کی تلاش و تعیین انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر پیش آمدہ جدید مسائل کے احکام معلوم نہیں ہوسکتے۔ نصوص کے ظواہر سے استدلال و تمسک کرنا گویا عقل و فکر کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے بعض تفردات اور جمہور فقہا کی روش سے انحراف کے باوجود ان کے دیگر مثبت کاموں کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ مثلاً شیخ عِزالدین بن سلامؒ کہتے ہیں کہ: ’’میں نے اسلامی کتب میں ابنِ حزمؒ کی ’’المحلّٰی‘‘ اور شیخ موفقؒ کی ’’المغنی‘‘ جیسی علمی کتاب نہیں دیکھی‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج: 2، ص: 766)
علامہ ابنِ حزمؒ نے سیرت پر ایک مختصر کتاب ’’جوامع السّیرۃ‘‘ لکھی ہے، جو نہایت والہانہ عقیدت و محبت سے لکھی گئی ہے، جس میں آپ لکھتے ہیں کہ: ’’رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت کا جو شخص تعصب کی عینک اُتار کر مطالعہ کرے گا، وہ آپؐ کی نبوت کی تصدیق پر مجبور ہوجائے گا۔ کیوں کہ آپؐ کی سیرتِ مطہرہ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپؐ کی سیرت ہی آپؐ کی صداقت کے لیے معجزہ ہے۔
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
Tags
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
عبدالرحمن الداخل - یورپ میں آزاد اُمَوی ریاست کے بانی (1)
یورپ میں آزاد اُمَوی ریاست کے بانی جب مشرق میں بنواُمیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بنوعباس برسرِ اقتدار آئے تو بنواُمیہ کے ایک نامور فرزند عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام نے اَن…
خلافتِ بنو عباس؛ نظام و کارنامے
خلافتِ بنو عباس کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ اور خلافتِ بنواُمیہ کی طرح خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ابتدا میں اسلام اور عربی رنگ غالب تھا، لیکن فتنوں کے ظہور اور متوکل علی اللہ کے…
طارق بن زیاد؛ فاتح اَندلُس (2)
طارق بن زیاد کی قیادت میں جب اسلامی لشکر جبل الطارق پر اُترا تو اس کے آس پاس کے جزیرے اور شہر بآسانی زیرنگیں ہوگئے۔ طارق نے ان شہروں کی فصیلوں اور قلعوں کو درست کرایا۔ وہ…
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…