وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهرَةً فَأَخَذَتكُمُ الصّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرونَ-55
ثُمَّ بَعَثناكُم مِن بَعدِ مَوتِكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ-56
(اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم ہرگز یقین نہ کریں گے تیرا جب تک کہ نہ دیکھ لیں اللہ کو سامنے۔ پھر آلیا تم کو بجلی نے اور تم دیکھ رہے تھے۔ پھر اُٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو مرگئے پیچھے، تاکہ تم احسان مانو۔)
گزشتہ آیات میں واضح کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات ایسی عظیم کتاب دی گئی۔ اُن کے طُور پہاڑ پر جانے کے موقع پر بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا کرکے اللہ کی جناب میں تفریط اور کوتاہی کی تھی۔ انھوں نے ذاتِ باری تعالیٰ کی عظمت کی خلاف ورزی کی تھی۔ یوں اللہ کی ذات کے بارے میں کوتاہی اور تفریط کے مرتکب ہوئے تھے، جس پر انھیں سزا اور معافی دی گئی۔
ان آیات میں ذاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے بنی اسرائیل کی طرف سے بہت زیادہ بے باکی اور اِفراط کے اظہار کا بیان ہے۔ پھر اس کو معاف کرکے اُن پر احسان جتلایا گیا ہے۔ اس لیے کہ کسی قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ اُن میں اِفراط و تفریط سے ہٹ کر اعلیٰ اَخلاق کا توازن پیدا ہو۔ توحید ِالٰہی کے ساتھ سچا تعلق قائم ہو۔
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهرَةً : اس آیت کا پسِ منظر یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا کے جرم کی سزا کے بعد معافی دے دی گئی تھی، جیسا کہ گزشتہ آیات میں گزرا ہے۔ طُور پہاڑ سے واپس آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں بتلایا کہ تورات اللہ کا کلام ہے۔ اس کے ساتھ شرک اور کفر کرنے کے بجائے اس کلامِ الٰہی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔ انھوں نے تورات کی تعلیمات کے مطابق ذاتِ باری تعالیٰ کی وحدانیت اور توحید کی اہمیت بتلائی، تاکہ اُن میں صفتِ احسان پیدا ہو۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے ستر آدمی منتخب کیے اور انھیں طُور پہاڑ پر لے گئے، تاکہ انھیں کلامِ الٰہی سنائیں۔ جیسا کہ سورت الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور چُن لیے موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر مرد ہمارے وعدے کے وقت پر لانے کو‘‘ (الاعراف: 155)۔ پھر جب انھوں نے کلامِ الٰہی کو سنا تو ان ستر آدمیوں نے کہا کہ اے موسیٰ! پردے میں سننے کا ہم اعتبار نہیں کرتے۔ آنکھوں سے خدا کو دکھاؤ۔ اس طرح انھوں نے ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑی بے باکی اور اِفراط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’ہم ہرگز تمھارا یقین نہ کریں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، جب تک آنکھوں سے صریحاً خدا تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں‘‘۔
فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ: اُن کی اس بے باکی اور زیادتی پر اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے بجلی نے پکڑ لیا اور وہ اُس سے ہلاک ہوگئے۔ سورتُ الاعراف میں ’’الصّاعقۃ‘‘ کی جگہ ’’الرّجفۃ‘‘ کا ذکر ہے کہ زلزلے نے انھیں آپکڑا۔ ’’تفسیرِ عثمانی‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’اس گستاخی پر نیچے سے سخت بھونچال آیا اور اوپر سے بجلی کی کڑک ہوئی۔ آخر کانپ کر مر گئے یا مُردوں کی سی حالت کو پہنچ گئے۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو اُن کے ساتھ نتھی کرکے نہایت مؤثر انداز میں دعا کی‘‘۔
اُن ستر آدمیوں کی موت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے عرض کیا کہ: ’’اے میرے ربّ! اگر تُو چاہتا تو پہلے ہی مجھ کو اور ان کو ہلاک کردیتا۔ کیا ہم کو ہلاک کرتا ہے اُس کام پر جو ہماری قوم کے احمقوں نے کیا؟یہ سب تیری آزمائش ہے ۔۔۔ تُو ہی ہمارا ولی ہے۔ پس ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما دے۔ اور تُو اچھا معاف کرنے والا ہے‘‘ (الاعراف: 155)۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی صفتِ احسان کے حوالے سے بڑھی ہوئی بے باکی کی سزا کو معاف کرنے کی درخواست پیش کی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھیں دوبارہ معاف کردیا۔
ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس سفارش کے بعد موت کے بعد انھیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کیا اور انھیں دوبارہ زندگی بخشی۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم جب طور پہاڑ پر پہنچی تو اُن کے دلوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف شوق کی حالت بڑھی۔ اس موقع پر انھوں نے وہی مطالبہ کیا، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے ’’رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ‘‘ (الاعراف: 143) (اے میرے رب! تُو مجھ کو دکھا کہ میں تجھ کو دیکھوں) کی صورت میں کرچکے تھے۔ اس پر حق تبارک و تعالیٰ نے بجلی کی کڑک کی صورت میں اپنی تجلی ڈالی، جس نے انھیں ہلاک کردیا۔ پھر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے انھیں زندہ کردیا‘‘ (تاویل الاحادیث)۔
لَعَلَّكُم تَشكُرونَ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا۔ اس پر تم شکر ادا کرو۔ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں: ’’اَخلاق کے حصول میں کبھی اِفراط ہوتا ہے، کبھی تفریط ہوتی ہے۔ جب کوئی طالبِ علم کسی خُلق کے دونوں پہلوؤں کے تجربے سے گزر جائے تو اُس میںیہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ اِفراط و تفریط سے ہٹ کر اُس خُلق میں میانہ روی اختیار کرے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کی جناب میں کوتاہی اور تفریط کی۔ اس کے نتیجے میں سزا او رپھر معافی کا معاملہ ہوا جیسا کہ آیت 52 میں ہے تواللہ تعالیٰ نے ’’لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ‘‘ کا جملہ استعمال کیا۔ پھر جب بنی اسرائیل نے اللہ کی جناب میں بے باکی اور اِفراط سے کام لیا تو اُس وقت بھی انھیں معاف کرنے کے بعد آیت 56 میں بھی ’’لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ‘‘ کا جملہ استعمال کیا۔ معافی کے بعد شکر سے مقصد یہی ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کی جناب میں اِفراط و تفریط سے ہٹ کر صفتِ احسان کے حصول میں اعتدال اور توازن کی راہ پر آئیں۔ اس سے بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت مقصود تھی‘‘۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
Violation of laws and constitution; A Habit of Jews
The previous verses (87-90) of Surah Al-Baqarah mention the corruption of the Israelites, who continuously rejected comprehensive religious teachings sent by Allah, cont…
قوموں کی سیاسی بے شعوری کے خطرناک نتائج
سورت البقرہ کی گزشتہ آیات (86-85) میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرے میں تقربِ بارگاہِ الٰہی کے لیے عبادات اور عدل و انصاف کی سیاست میں تفریق پیدا کرنے والی جماعت دنی…
انسانی معاشروں کی سزا و جزا کا بنیادی اُصول
گزشتہ درسِ قرآن کی آیت (البقرہ: 79) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم و دانش تورات کی آیات میں تحریف کرتے تھے۔ خاص طور پر آیات کے معانی اور اُن کی تعبیر و تشریح کے بی…