ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔بے پناہ دولت جمع کرلینے کے باوجود یہ دونوں کمپنیاں انیسویں صدی کے وسط تک عملی طور پے بے اثر ہوچکی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ اجارہ داری کی نہ ختم ہونے والی جنگ بنی۔ چناں چہ حصہ داروں کا لالچ اور کمپنی کی قرض حاصل کرنے کی لامحدود صلاحیت نے ایسے مالیاتی ڈھانچے کو جنم دیا، جس نے بالآخر ان بہ ظاہر ناقابلِ تسخیرکاروباری اکائیوں کو دیوالیہ کرکے رکھ دیا۔ یورپ میں ان کمپنیوں کی طرز پر دھیرے دھیرے کئی چھوٹے بڑے کاروبار جنم لیتے رہے اور ان پر دیوالیہ ہونے کے خطرات بڑھتے چلے گئے۔ چناں چہ ان خطرات سے نبردآزما ہونے اور اس طرح کی کمپنیوں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے لیے 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آج پوری دنیا کے مرکزی بینک ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کی طرز پر ہی قائم کیے جاتے ہیں۔
آج پوری دنیا کے مرکزی بینک معیشت میں ترسیلِ زر کی روانی کو ممکن بناتے ہیں، تاکہ پیداوار کا پہیہ چلتا رہے۔ جدید دور میں حکومتوں کے پاس زر کی صورت میں وسائل فراہم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوتے ہیں: ایک ٹیکس وصولی اور دوسرا بینکوں سے قرض۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ذرائع عوام کی خون پسینے کی کمائی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اوّل الذکر لوگوں کی آمدن سے اس لیے وصول کیا جاتا ہے، تاکہ بدلے میں انھیں یکساں طور پر امن، انصاف، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جاسکیں۔ بعد الذکر بینک میں جمع ہونے والی وہ بچت ہے، جسے لوگ اپنے اخراجات کے بعد مستقبل کے لیے بچا کر رکھتے ہیں۔ بینکوں سے قرض لے کر حکومتیں دراصل اس بچے کھچے زر کو بھی استعمال کرلیتی ہیں اور دھیرے دھیرے کُل معیشت کو کنگال کردیتی ہیں۔ اگر ایسے میں اخراجات نہ رُکیں اور لالچ بڑھتا جائے تو جو اصول ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے تھا، وہ بدل نہیں سکتا۔ اب بھی ایسا ہی ہو گا اور مالیاتی نظام کو بکھرنا ہی ہوگا۔
مالیاتی نظام کی اس تباہی کو عموماً متعلقہ نام دیے جاتے تھے، جیسے ’’عالمی قدرتی تیل کا بحران‘‘، ’’ایشین کرنسی بحران‘‘ اور ’’سب پرائم مارٹ گیج بحران‘‘، لیکن اب غالباً سرمایہ داری نظام کی بقا کے پیشِ نظر اسے کرونا کی وبا کا نام دیا گیا ہے۔ چناں چہ کرونا وبا کی آمد کے بعد مغربی ممالک نے بڑی بڑی مالیاتی سہولتوں کا اعلان کیا۔ بے پناہ نوٹ چھاپے گئے، تاکہ اخراجات کی رفتار تھمنے نہ پائے۔ اس مقصد کے لیے بینکوں سے بڑی مقدار میں قرضے حاصل کیے گئے۔ اس طرز پر پاکستان جیسے ممالک نے بھی عمل کیا اور اربوں روپے اس مقصد کے لیے خرچ کیے گئے۔
اب اس رقم کی واپسی کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر بنیادی ضرورت کی اشیا مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ اس کی وجہ معیشت میں موجود کثرتِ زر ہے، جو نسبتاً کم پیداوار کی طلب کو بڑھا رہی ہے۔ اس کادوہرا اَثر پاکستان پر پڑے گا۔ ایک عالمی منڈی میں مہنگائی کی صورت میں اور دوسراپاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …