یورپ میں آزاد اُمَوی ریاست کے بانی
عبدالرحمن الداخل۱۳۸ھ/ 756ء سے۱۷۲ھ / 788ء تک اندلس کے حکمراں رہے۔ وہ 731ء میں دمشق میں پیدا ہوئے اور 30؍ ستمبر 788ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ 25 سال کی عمر میں اندلس کے حکمران بنے اور تقریباً 32 سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ حکمرانی کی۔ ملک کا انتظام و انصرام عمدہ طریقے سے چلایا۔ عوام کی خوش حالی کی طرف ان کی توجہ سب کاموں سے زیادہ تھی۔ وہ تمام اسباب بروئے کار لائے گئے، جن سے عوام کو امن و امان اور معاشی ترقی حاصل ہو۔ امن و امان کے قیام کے لیے مقامی اُمرا کی بغاوتوں کو فرو کیا۔ فرانس کے بادشاہ شارلیمان کا حملہ پسپا کیا۔ علم و عمل کی وہ شمعیں روشن کیں، جن سے یورپ کا اکثر حصہ مستفید ہوا۔ اندلس کی سرزمین علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی۔ وہ مردم خیزی میں کسی بھی طرح بغداد اور دمشق سے کم نہیں تھی۔ اندلس کی کوکھ سے جن عظیم اصحابِ علم و فضل اور سائنس دانوں نے جنم لیا، انھیں کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ جیسا عظیم شہر رشکِ فلک بنا۔ اندلس کی تمدنی ترقی کے پیچھے جن اہلِ علم کا ہاتھ تھا، وہ قدیم و جدید دونوں علوم سے آراستہ تھے۔ دینی غلبے اور دُنیوی ترقی کے لیے جدید و قدیم کا حسین امتزاج ضروری ہے۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ فرماتے ہیں: ’’اسلام باتوں سے نہیں قائم ہوسکتا۔ اگر دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بہ دوش کھڑے ہونا ہے تو جدید علوم سیکھنے ہوں گے۔ جب کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا، تو وہ نہ دین کی خدمت کرسکتا ہے، نہ دنیا کی‘‘۔ عبدالرحمن الداخل عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم اور باتدبیر حکمران تھا۔ اس نے یہاں قلعوں اور شہروں کی فصیلیں تعمیر کروائیں۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر اس کا عظیم کارنامہ ہے، مگر آج اس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ اسی عمارت کو دیکھ کر علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ لکھی تھی ؎
اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صورت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
عبدالرحمن الداخل نے اندلس کی سرزمین پر پہلا کھجور کا درخت لگایا۔ اس درخت کو دیکھ کر اس کو اپنا وطن دمشق یاد آیا تو اس نے عربی میں نظم کہی، جس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔ دو شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
میری آنکھ کا نور ہے تُو
میرے دل کا سرور ہے تُو
اپنی وادی سے دور ہوں میں
میرے لیے نخلِ طور ہے تُو
اندلس کے مشاہیرِ علم و فضل اور سائنس دان اگلی قسط میں ا ن شاء اللہ۔
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
سیّدنا عبدالملک بن مروانؒ
پچھلے دنوں ایک دعائیہ تقریب میں ایک ’’عالمی مبلغ‘‘ نے جھوٹی اور موضوع روایات کا سہارا لے کر خلفائے بنواُمیہ کی کردار کشی کی اور ایسے جھوٹے واقعات …
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…
ولید بن عبدالملک؛ ان کے کارہائے نمایاں
بعض اہلِ تاریخ نے کذب و افترا سے کام لیتے ہوئے تاریخ نویسی کی ہے۔ ان کو نہ روایت سے بحث ہے، نہ درایت سے۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ہر ممکن خلا پیدا کی…