یاقوت حموی کی کتاب ’’معجم البلدان‘‘ میں روایت ہے کہ مشہور و ثقہ محدث شیخ عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی بصری (۱۰۸ھ - ۱۹۴ھ) کے سامنے کچھ لوگوں نے حجاج کا برائی کے ساتھ تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’إنّما تذکرون المساوی، أما تعلمون أنّہ أوّل من ضرب درہماً علیہ: لا إلٰہ إلاَّ اللّٰہ محمّد رّسول اللّٰہ، و أوّل من بنی مدینۃ بعد الصّحابۃؓ فی الإسلام، و أوّل من اتّخذ المحامل، و أنّ امرأۃ من المسلمین سبیت بالہند فنادت یا حجاجاہ! فاتّصل بہ ذٰلک، فجعل یقول لبّیک لبّیک، و أنفق سبعۃ آلاف ألف درہم، حتّٰی افتتح الہند، و استنقذ المرأۃ، و أحسن إلیہا۔‘‘ (معجم البلدان، ص:382، ج:8)
(تم لوگ اس کی برائیوں کا تذکرہ کرتے ہو، مگر کیا تم کو معلوم ہے کہ اس کے عہد میں سب سے پہلے سکہ ڈھالا گیا، جس پر کلمہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا نقشہ تھا۔ اور عہد ِ اسلام میں صحابہؓ کے بعد سب سے پہلے شہر آباد کیا۔ اور اس نے سب سے پہلے عورتوں کا محمل ایجاد کیا۔ اور ایک مسلمان عورت ہندوستان میں گرفتار کی گئی۔ اس نے حجاج کو دہائی دی۔ جب حجاج کو اس کی خبر ملی تو اس نے لبیک کہا اور ستر لاکھ درہم خرچ کرکے ہندوستان کو فتح کیا۔ اس عورت کو قید سے رہائی دلائی اور اس کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا۔)
فتح سندھ و ہند کا پس منظر: فتح سندھ و ہند کی تقریب یوں ہوئی کہ کچھ مسلمان تاجر سراندیپ کے جزیرے میں سفر کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کے یتیم بچے اور بیوہ عورتیں جو اس جزیرے میں رہ گئیں، ان کو سراندیپ کے حکمران راجہ نے عرب حکمرانوں کے ساتھ جذبۂ خیرسگالی کے تحت نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ واپس عرب بھجوانے کا انتظام کیا اور اپنے قابل اعتماد کارندوں کی زیرنگرانی کشتیوں میں بٹھا کر حجاج کے پاس روانہ کیا۔ اور بہت سے ہدایا اور تحائف بھی حجاج اور خلیفہ ولید کی خدمت میں بھجوائے۔ یہ کشتیاں اس وقت کے بادبانی جہاز سراندیپ سے روانہ ہو کر ساحل کے قریب قریب سفر کرتے ہوئے خلیجِ فارس کی طرف روانہ ہوئے کہ وہاں سے خشکی پر اُتر کر یہ لوگ مع اپنے سامان اور تحائف کے حجاج کے پاس کوفہ پہنچ جائیں گے، لیکن ہوا یوں کہ راستے میں سمندر کی مخالف ہوا نے ان کشتیوں کو سندھ کی بندرگاہ دیبل میں لا ڈالا۔ یہاں سندھ کے راجہ داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کو لوٹ لیا اور اس پر سوار لوگوں کو قید کرلیا۔ اس صورتِ حال کا جب حجاج کو علم ہوا تو اس نے سندھ کے راجہ کو خط لکھا کہ وہ کشتیاں ہمارے پاس آرہی تھیں، جن کو تمھارے لوگوںنے لوٹ لیا ہے۔ ان لٹیروں کو قرار واقعی سزا دو اور لوٹا ہوا سامان اور قید کیے ہوئے افراد کو ہمارے پاس بھیج دو۔ لیکن راجہ داہر نے حجاج کے اس مطالبے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ اُلٹا حجاج کے خط کا نامعقول جواب دیا۔ اس پر حجاج نے عبداللہ اسلمی کو چھ ہزار فوج دے کر سندھ کی طرف روانہ کیا۔عبداللہ اسلمی سندھ پہنچے اور راجہ داہر کی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے اور یہ مہم ناکام ہوگئی۔ دوبارہ حجاج نے بدیل کی سربراہی میں چھ ہزار فوج بھیجی۔ اس مہم میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ حجاج کو اس ساری صورتِ حال پر بہت تشویش تھی۔ چناںچہ تیسری مرتبہ اپنے سترہ سالہ بھتیجے محمد بن قاسم کی سربراہی میں چھ ہزار شامی سپاہی بھیجے۔ شامی فوج کا انتخاب اس لیے کیا کہ پہلی دونوں مہموں میں فوج میں زیادہ تر عراقی اور ایرانی سپاہی تھے، جن کے بارے میں حجاج کو شبہ ہوا کہ شاید انھوں نے راجہ داہر کے فوجیوں کے ساتھ سازباز نہ کرلی ہو۔ چناںچہ محمد بن قاسم کی سربراہی میں شامی فوج نے سب سے پہلے صوبہ مکران کو فتح کیا، جس پر سندھ کے راجہ نے قبضہ کر رکھا تھا۔ پھر دیبل پہنچے۔ معرکہ ہوا۔ اس لڑائی میں راجہ داہر مارا گیا۔ سندھ کے شہروں کو فتح کرتے ہوئے محمد بن قاسم ملتان تک پہنچے۔ سندھ کی فتح میں حجاج بن یوسف پورے طور پر متوجہ تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر آگاہی حاصل کرتا اور محمد بن قاسم کو ہدایات بھیجتا۔ اس لیے حجاج کو اور ولید کو سندھ و ہند کا فاتح قرار دیا گیا ہے۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔