ولید بن عبدالملک بن مروان ۵۰ھ / 607 ء میں پیدا ہوئے۔ چھتیس سال کی عمر میں اپنے والد عبدالملک بن مروان کی وفات کے بعد خلیفہ مقرر ہوئے۔ اپنے والد کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر ولید نے جامع مسجد دمشق میں خطبہ دیا، جس کا خلاصہ یہ تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کا ولی ایسے شخص کو بنایا ہے، جو حدودِ شرعیہ قائم کرے گا۔ مجرموں اور فساد فی الارض پھیلانے والوں کے ساتھ سختی اور اہل فضل و کمال کے ساتھ احترام و اکرام کا رویہ اختیار کرے گا۔ جو بیت اللہ کا حج اور اسلامی سرحدات کی حفاظت کا عزم رکھتا ہے۔ لوگو! تم خلیفہ وقت کی اطاعت کرو اور آپس میں اتحاد و اتفاق کو قائم رکھو۔ یاد رکھو! سرکشی و بغاوت کسی صورت قابل قبول نہیں۔‘‘
گورنروں کا تقرر: سب سے پہلے خلیفہ ولید نے اہل اور باصلاحیت افراد کو اہم علاقوں کا گورنر مقررکیا۔ مثلاً عراق کے پُرشورش علاقے پر حجاج بن یوسف کو جو پہلے سے اس علاقے کے گورنر تھے، بحال رکھا۔ قتیبہ بن مسلم جو اسلامی فتوحات کو ترکستان اور چین تک بڑھانے والے ہیں، ان کو خراسان کا گورنر مقرر کیا۔ موسیٰ بن نصیر جو شمالی افریقی ممالک کو فتح کرتے ہوئے یورپ تک پہنچے تھے، ان کو شمالی افریقی ممالک کا گورنر مقرر کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا۔
رفاہی کام: خلیفہ ولید نے رفاہِ عامہ اور انسانی مفادات کے بہت سے عمدہ کام کیے۔مثلاً سڑکیں بنوائیں۔ ہسپتال قائم کیے۔ مسافروں کے لیے سرائیں بنوائیں۔ کنویں کھدوائے۔ راستوں میں امن و امان کو یقینی بنایا۔ مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی، مدینہ تک ایک نہر کھدوائی جس سے پانی کی قلت دور ہوئی۔ ۸۷ھ / 705ء میں جامع مسجد دمشق کی توسیع و تعمیر کی اور اسی سال حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زیراہتمام مسجد ِنبویؐ کی توسیع ہوئی۔ ازواجِ مطہرات کے حجروں کو مسجد ِنبویؐ میں شامل کیا گیا۔ معذور افراد کے لیے ماہانہ وظائف مقرر کیے اور انھیں بھیک مانگنے کی ممانعت کردی۔ نابینا اور اپاہج افراد کی خدمت کے لیے خادم رکھوائے۔ (دیارِ بکری، ص: 312، ج:3 و البدایہ و النہایہ، ص: 164، ج:9)
فتوحات: خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں کثرت سے فتوحات ہوئیں۔ پیہم فتوحات سے لوگوں کو حضرت عمرفاروقؓ کا زمانہ یاد آگیا۔ ۸۷ھ / 705ء میں ولید کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے بلادِ روم کے بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ انھی کی قیادت میں ۸۹ھ / 707ء میں آذربائیجان فتح ہوا۔ موسیٰ بن نصیر کی زیرقیادت شمالی افریقا کے بہت سے ممالک مفتوح ہوئے۔ طارق بن زیاد کی زیر کمان ہسپانیہ (سپین) فتح ہوا۔ ولید کے زمانۂ خلافت میں محمد بن قاسم بن یوسف ثقفی __ جو حجاج بن یوسف کے بھتیجے تھے __ نے ہندوستان کے بہت سے علاقے فتح کیے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ولید کی ہمت و عزیمت اور حجاج کی غیرت و حمیت کے نتیجے میں ہندوستان میں اسلام کا بول بالا ہوا اور یہ فتوحات ولید کی خلافت کے کارہائے نمایاں شمار کیے جانے لگے۔ بہت سے مؤرخین نے خلیفہ ولید اور امیر حجاج بن یوسف ہی کو فاتح ہندوستان تسلیم کیا ہے اور اسے ان کے محاسن میں شمار کیا ہے۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔