عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃ - رضی اللّٰہ عنہ - قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ :
’’مَا مِنْ أَیَّامٍ أَحَبُّ إِلی اللّٰہِ أَنْ یَّتَعَبَّدَ لَہٗ فِیْھَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحَجَّۃِ، یَعْدِلُ صِیَامُ کُلَّ یَوْمٍ مِنْھَا بِصِیَامِ سَنَۃٍ، وَ قِیَامُ کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْھَا بِقِیَامِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: 758)
(حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی دن اللہ کو اتنے محبوب نہیں کہ جن میں اللہ کی عبادت اور خشوع و خضوع اختیار کیا گیا ہو، جتنے ذو الحج کے ابتدائی دس دن اللہ کو محبوب ہیں۔ ان میں ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے فوائد و ثمرات کے برابر ہے۔ ان میں سے ہر رات کی عبادت کے نتائج شبِ قدر کے فوائد و ثمرات کے برابر ہیں‘‘۔)
زیرِنظر حدیث کی روشنی میں ذی الحج کے پہلے دس دِنوں اور راتوں میں عبادات، روزے اور نوافل یا دیگر عبادات مؤمن کی روحانی ترقی کے لیے نہایت مفید اور حصولِ تقویٰ کے لیے اِکسیر ہیں۔ تزکیۂ نفس اور رُوحانی بالیدگی کی طرف جب تک خصوصی توجہ اور دھیان نہ دیا جائے، تب تک خاطرخواہ کامیابی نہیں ملتی۔ اس مقصد کے لیے یکسوئی کے ساتھ طویل عرصے تک مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔
عبادات کے لیے مخصوص ایام و اوقات اور مقاماتِ مقدسہ میں جسمانی اور قلبی ریاضت؛ روح کی پاکیزگی، تزکیۂ قلب اور تصفیۂ باطن میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کاوش سے انسان کا دل اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ برائیوں اور گناہوں سے بیزار، نیکیوں کی طرف راغب اور عبادات میں زیادہ سے زیادہ منہمک اور مشغول ہوجاتا ہے۔ یوں اَخلاقِ رذیلہ سے چھٹکارا اور عمدہ اَخلاق کا خوگر ہونے کے لیے عبادات، تلاوتِ قرآن کی پابندی اور ذکر اذکار کی مشغولیت نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
عبادات کے لیے وہ ایام جن کی نشان دہی نبیﷺ نے کی ہو، ازحد مفید ثابت ہوتے ہیں۔ حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق ذو الحج کے پہلے نو دنوں کے روزے اور ان کی راتوں کی عبادت، سال بھر کے روزوں اور لیلۃ القدر کے قیام کا اَجر لیے ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں اور لیلۃ القدر کی فضیلت جنھیں پہلے نصیب ہوگئی ہو، ان کو مزید ترقی حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ جو رمضان المبارک میں اس فضیلت سے محروم رہ گئے ہوں، رب کریم کی طرف سے انھیں دوبارہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان ایام سے فائدہ اُٹھا لیں۔ اس لیے جسے اپنی حالت کی بہتری کی آرزو ہو تو زیرِنظر حدیث کی روشنی میں اسے ذو الحج کے پہلے دس مبارک ایام میں عام معمول سے زیادہ عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ اس میں وہ اوصاف پیدا ہوں جو اِن ایام میں اللہ تعالیٰ نے ایک مؤمن کے لیے مقدر کر رکھے ہیں۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
علمائے دین کا دنیاپرستوں کی قربت کا نتیجہ (2)
عَن ابنِ عبّاسؓ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ’’إنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِيْ سَیَتَفَقَّہُوْنَ فِي الدِّیْنِ، وَ یَقْرَئُ ونَ الْقُرْآنَ، وَیَقُوْلُونَ: نَأتِي الْأُمَرَائَ فَنُصِیبُ مِنْ دُنْیَاھُمْ، وَ نَعْتَزِلُہُمْ بِدِیْنِنَا، وَ لَا…
عبادات اور اَخلاقیات کا باہمی ربط
عَنْ أبِي ہُرَیْرَۃَ، أِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: ’’أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟‘‘ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِینَا مَنْ لا دِرْھَمَ لَہُ، وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: ’’إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي، یَأْتِي یَ…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد
14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…