عَنْ مَالِکؒ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہ ﷺ قَالَ:
’’بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلاَق‘‘۔ (المُوَطّأ، حدیث: 1628)
)امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’مجھے اچھے اَخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیاگیا ہے‘‘۔(
نبی اکرمﷺ کے مقاصدِ نبوت میں سے ایک اہم مقصد؛ اَخلاق کی خوبی کو واضح کرنا تھا۔ اَخلاق ’’خُلق‘‘ کی جمع ہے۔ خُلق انسان کا وہ ملکہ ہے، جو مسلسل اچھے یا بُرے اعمال کرنے کے نتیجے میں انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ اچھے اعمال کے نتیجے میں اچھے اَخلاق اور بُرے اعمال کے نتیجے میں بُرے اَخلاق۔ اَخلاقِ حسنہ (اچھے اَخلاق) اور اَخلاقِ رذِیلہ (بُرے اخلاق) کی تقسیم اسی بنا پر ہے۔ نبی اکرمﷺ کی اوّلین ذمہ داری کل انسانیت کی تربیت تھی۔ اس تناظر میں حضور ﷺ نے عربوں کے لیے خصوصیت سے اور بالعموم تمام انسانیت کے لیے یہ بات کی ہے۔ عرب خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار کہتے تھے۔ اس نسبت سے بعض ابراہیمی اَخلاق ان میں رائج تھے، مثلاً مہمان نوازی، عہد کی پاسداری اور جرأت و بہادری وغیرہ، لیکن ان میں کچھ اَخلاق غلط بھی رواج پاگئے تھے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: مجھے اَخلاق کی خوبی کو ٹھیک کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
رسول اللہﷺ انسانی اوصاف میں ممتاز تھے۔ آپؐ کا مزاج مبارک اپنی مثال آپ تھا۔ اسی وَجہ سے آپؐ کے بارے میں کہا گیا: ’’وانک لعلی خلق عظیم‘‘ (آپؐ اَخلاق کے اونچے مقام پر فائز ہیں)۔ آپؐ کے اَخلاق اور رویے مخلوقِ خدا کے لیے باعثِ اطمینان، ان کی آسانی، راحت، عزت اور ترقی کا باعث بنتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ عمومی اَخلاق میں تو منفرد تھے ہی، مگر دوسروں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اپنے مخاطب کی نفسیات اور مقام و مرتبے کا خاص خیال رکھتے تھے۔ کسی کے لیے بھی عموماً اور بالخصوص صاحبِ منصب آدمی کے بارے کوئی ایسا جملہ نہیں بولتے تھے، جس سے وہ اپنی بے عزتی اور ذلت محسوس کرے۔ رسول اللہﷺ لوگوں کے سماجی اور خاندانی مناصب ومراتب کا خیال رکھتے تھے۔ اس لیے ایک موقع پر فرمایا: ’’انزلوا النّاس منازلھم‘‘ ( رواہ ابودائود) کہ لوگوں کے ساتھ ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق سلوک کرو۔ اس حسنِ خلق کی وَجہ سے ہر صحابی ؓاس بات کا شدت سے احساس رکھتا تھا کہ حضور ﷺ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ یہ اُمور انسان کے اَخلاق کو بھی سنوارتے ہیں اور لوگوں میں معتبر بھی کرتے ہیں۔ کسی انسان کی عزت کا لحاظ کرنا یا مایوس انسان کو حوصلہ دینا بہت بڑا خُلق ہے اور یہ حضور ﷺ کا نمایاں وصف تھا۔ اسی پسِ منظر میں آپؐ نے سماجی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
عن انس رضی اللہ عنہ، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین۔ (رواہ البخاری) ترجمہ: ’’حضرت انس ب…
علامہ ابنِ خلدوؒن کا نظریۂ نبوت
انسانی تاریخ میں معاشروں کو تبدیل کرنے والا سب سے مؤثر عامل‘ جس نے اقوام و ممالک کی جغرافیائی اور نسلی عصبیتوں کو ختم کر کے نوعِ انسانی کے ایک ہی اعصابی نظام میں ڈھ…
رسالتِ نبوی ﷺ کی حقانیت پر مبنی بعثت
گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 117-116) میں یہود و نصاریٰ کے اہلِ علم لوگوں کے غلط عقیدے کا ردّ تھا کہ وہ اپنے انبیا علیہم السلام کو ’’بدیع‘‘ (نئے طریقے سے …
سوسائٹی کی تشکیل کے لیے اُسوۂ حسنہ کی اہمیت
سیرۃ النبی ﷺ کی اہمیت مسلمان جماعت کے لیے نبی اکرمؐ کی سیرت اور آپ کی زندگی اُسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم الشان شخصیت ہیں…