عَنْ ابن عبّاسٍؓ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ، وَ الْیَہُوْدُ تَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ فَسَأَلَھُمْ، فَقَالُوْا: ھٰذَا الْیَوْمُ الَّذِيْ ظَہَرَ فِیْہِ مُوْسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّﷺ: ’’نَحْنُ أَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْھُمْ فَصُوْمُوْہُ‘‘۔ (الجامع الصّحیح للبُخاری، حدیث:4737)
(حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ: ’’پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حق دار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو‘‘۔)
زیرِ غور حدیث مبارک میں یومِ عاشورہ کے روزے کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ نبی ﷺ نے ایک اَور اہم بات کی طرف توجہ دِلائی، وہ یہ کہ بنی اسرائیل یومِ عاشورہ کو فرعون کی غلامی سے نجات کو بہ طورِ عید مناتے تھے اور شکرانے کا روزہ رکھتے تھے، جس پر نبی ﷺ نے فرمایا کہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حقیقی وارث تو مَیں ہوں، لہٰذا اُن کو آزادی کی نعمت ملنے پر مَیں زیادہ حق دار ہوں کہ ربّ کے حضور اس پر شکر بجا لائوں۔
قوموں کی زندگی میں غلامی ہمیشہ بدترین لعنت قرار پائی ہے اور قوموں کی آزادی انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک اہم مشن رہا ہے۔ قصصِ قرآن میں ایک اہم قصہ بنی اسرائیل کے اس دور کا ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دور کے فرعون سے بنی اسرائیل کو آزادی دِلوائی تھی۔ نبوت ملنے کے بعد فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) میرے ساتھ بھیج دو‘‘۔ (-7الاعراف: 105) یہی ذمہ داری رسول اکرمﷺ کی بھی تھی۔ چناں چہ رسول اللہ کی مختلف خصوصیات ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم بیان کرتا ہے کہ: ’’نبیؐ اپنی قوم پر پڑی ہوئی غلامی کی زنجیروں کو اُتارنے والے ہیں‘‘۔ (-7الاعراف: 105) نبی اکرمؐ کی جدوجہد اسی اُصول پر استوار رہی۔ نہ صرف عرب قوم، بلکہ پوری دنیا کی آزادی کے لیے رسولِ اکرمؐ نے رہنما اُصول متعین کیے اور عملی مثالیں قائم کیں۔
قرآن حکیم اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ ہماری قوم یا دنیا کی اقوام آج حقیقی آزادی سے کیوں محروم ہیں؟ وہ کس قسم کی غلامی کا شکار ہیں اور انھیں ان غلامی کی زنجیروں سے کیسے نجات دِلائی جاسکتی ہے۔ فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے اہم فریضہ قومی آزادی کا حصول ہوتا ہے، ورنہ غلامی کی وَجہ سے بہت سے شرعی اور دینی اعمال پر انسان عمل نہیں کرپاتا، یا وہ بے سود اور بے نتیجہ رہتے ہیں۔تمام انبیا علیہم السلام نے غلامی سے نجات حاصل کرنے اور حقیقی آزادی کے حصول کی جدوجہد کی ہے۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
حُبِّ نبویﷺ کا معیار
عَنْ عَبدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ قُرَادٍ أنَّ النَّبیَّﷺ تَوَضَّأَ یَوْمًا، فَجَعَلَ أصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْئِہٖ۔ فَقَالَ لَہُمْ النَّبِیُّﷺ: ’’مَا یَحْمِلُکُمْ عَلٰی ھٰذَا؟‘‘ قَالُوْا: حُبُّ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔ فَقَالَ ال…
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ
حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پ…
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …