تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام
اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
آج کل ہمارے ہاں سیاسی حالات کی بے یقینی کی وجہ سے ایک طوفانی ہیجان برپا ہے۔ جب کبھی کسی ذمہ دار معاشرے میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو لوگ احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کرکے اپنے غم و غصے کو راستہ دیتے ہیں۔ حکومتیں ایسے میں طاقت کے استعمال سے بچتی ہیں اور تشدد سے گریز کرتے ہوئے عوام سے انصاف و تدبر کے ساتھ نبٹتی ہیں کہ کہیں عوام کا غصہ شورش و ہنگامے کی صورت اختیار نہ کرلے، لیکن سابق حکمران پارٹی نے نام نہاد آئینی تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے مسلط کی گئی حکومت کے خلاف جب 25؍ مئی کو ’’حقیقی آزادی مارچ‘‘ کے نام سے اسلام آباد میں واقع ڈی چوک کی طرف بڑھنے کا اعلان کیا تو حکومت نے ملک بھر کے گلی کوچوں سے لے کر اسلام آباد کے ڈی چوک تک، حکومت مخالف پارٹی کے عام کارکنوں سے لے کر بچوں اور خواتین تک پر تشدد کرکے جس فسطائیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ بعد ازاں اس پُرتشدد عمل کی تفصیلات اور منصوبہ بندی سے متعلق جو کچھ سامنے آیا، وہ ہوش رُبا ہے۔ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہم عہد ِظلمات کے پُرتشدد دَور میں جی رہے ہیں۔
ویسے تو ہمارے ملک کی ساری سیاسی تاریخ یہاں کسی حقیقی جمہوری عمل کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔ جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے اداریے میں یہاں کے نام نہادجمہوری اقتدار کے پیچھے عالمی سامراج کے بچھے ہوئے سازشوں کے جال کی نشان دہی کی تھی، لیکن اس بار کا ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) جس طرح وقوع پذیر ہوا ہے، اس نے جمہوری قبا میں چھپے دیو ِاِستبداد کے چہرے سے نقاب نوچ لیا ہے۔ اس تبدیلی میں جمہوریت اور اسلام کے تاجروں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی بقا کے دعوے داروں نے ایسے گل کھلائے ہیں کہ مفاد پرستی کے اس ہجوم میں معاشرے میں قومی احساس کی بچی کھچی قوتیں فنا کے گھاٹ اُترتی محسوس ہوتی ہیں۔
’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) کے اس گھناؤنے کھیل میں جس طرح ایک پارٹی کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاکر منتخب ہونے والے اسمبلی ممبران راتوں رات دوسرے کیمپ میں شامل ہوئے،ایک ادارے کے ساتھ سیاسی چپقلش کو جس طرح گزشتہ چند سالوں سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خلائی مخلوق، محکمہ زراعت کا نام دے کر سول بالادستی کا ڈھول پیٹا گیا اور پھر اس ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) کے بعد اس ادارے کی توقیر کا جس طرح درس دیا جانے لگا، سابقہ حکومت کے بارہ روپے پیٹرول بڑھانے پر اپوزیشن لیڈروں کا واویلا اور پھر موجودہ حکومت کے 84 روپے کے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے باوجود سیاست دانوں کا اپنی اتحادی حکومت کے خلاف نہ بولنا‘ یہاں اسلامی نظام کی دُہائی دینے والوں کا اپنی وزارت کے زیرِ سایہ غریب کی جمع پونجی سے ہونے والے اس کے حج کو مہنگا کرنا اور وفاقی حکومت کے فلم انڈسٹری کے فروغ اور ترقی کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ کے عمل پر سیاسی جماعتوں کے مذہبی اتحادیوں کا دم سادھنا، اور زر خرید میڈیا کا سابقہ حکومت کے بارہ ہزار روپے ماہانہ دینے کے اقدام پر کڑی تنقید اور موجودہ حکومت کے دوہزار روپے دیے جانے کو مستحسن قرار دیتے ہوئے ستائشی انداز اختیار کرنا‘ یہ سب رویے ہمارے ہاں کے سیاسی بندوبست کے بودے پن کو ظاہر کررہے ہیں۔
اور پھر ایسے ہی اس ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) کے بعد کی حکومت میں جیسے اقربا پروری کرکے میرٹ کی دھجیاں اُڑائی گئیں، اس نے انسانیت کے قبائلی عہد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں نے اس جمہوری دورمیں اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی بنایا کہ ایک نے اپنے بیٹے کو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنوایا، دوسرے نے وزارتِ خارجہ ناتجربہ کار بیٹے کی جھولی میں ڈالی اور تیسرے نے وزارتِ مواصلات جیسی کمیشن بخش وزارت پر بیٹے کے ذریعے ہاتھ صاف کیا۔ شاہی اَدوار میں باپ کے بعد بیٹے کی حکمرانی پر اُنگلیاں اُٹھانے والے اس جدید جمہوری عہد میں اپنے سیاست دانوں کے طرزِ عمل کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ کس عہد کی مخلوق ہے۔
ایسے ہی اس ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) کے بعد جیسے آئین، دستور اور اداروں کی بے توقیری کی گئی، آج کی مہذب دنیا میں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ یہاں کہیں تو وزیر اعلیٰ کا انتخاب اسمبلی ضابطوں کو پسِ پُشت ڈال کر بھونڈے طریقے سے عمل میں لایا جاتا ہے۔ کہیں گورنر کو غیر آئینی طریقے سے فارغ کیا جاتا ہے۔ کہیں سیٹنگ سپیکر کے بغیر صوبائی اسمبلی کا اجلاس اسمبلی بلڈنگ کے باہر ایوانِ اقبال میں بُلاکر رسمی بجٹ پاس کروایا جارہا ہے۔ کہیں قومی اسمبلی میں منحرف اراکین کو اپوزیشن بنچوں پر بٹھاکر جعلی اپوزیشن تشکیل دے کر من مانی قانون سازی کی جارہی ہے۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے الیکشن ایکٹ اور نیب آرڈیننس کی بخیہ دری کی جاتی ہے۔
اداروں کی بات میں وزن نہیں رہا۔ کوئی کہتا ہے مداخلت نہیں ہوئی۔ کوئی کہتا ہے مداخلت ہوئی ہے، سازش نہیں ہوئی۔ کوئی کہتا ہے سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ نے مداخلت تسلیم کرلی ہے۔ کوئی کہتا ہے سیکورٹی چیفس کے خیال میں سازش کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔اس طرح قومی سلامتی ادارہ کی سلامتی پر سوالات اُٹھا دیے۔
کل تک اس ملک میں امریکی اثرورسوخ اور سیاسی وسماجی اُمور میں مداخلت ثابت کرکے عوامی مجمعوں میں داد وصول کرنے والے موجودہ ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) میں نہ صرف امریکی مداخلت کا انکار کررہے ہیں بلکہ بعض مذہبی رہنما امریکی صدر جو بائیڈن کے سیاسی تجربے کی تعریف اور دنیا میں انھیں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔
مذکورہ بالا اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی عمل میں موجود افراد‘ ملک وقوم سے زیادہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے محافظ ہیں۔ انھیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ہمارا ملکی اور سیاسی نظام ایک متعفن لاش کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اب اسے دفنائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
موجودہ "رجیم ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (regime change operation) کے بعد کے پیش کردہ مذکورہ بالا فیصلے کیا کسی جمہورے معاشرے کے ہوسکتے ہیں؟ ہماری سیاسی جماعتوں کے جو طور طریقے اور لچھن ہیں، اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے یا فسطائیت کی راہ ہموار ہوتی ہے؟ سب سے بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ اس فضا نے جو جماعتی تعصب اور گروہ پسندی پیدا کردی ہے، اس نے ان جماعتوں کے کارکنوں کا مزاج اور سوچ و فکر تک تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس سے نہ صرف کارکنوں کے دل و دماغ سے سیاسی اَقدار و اَخلاقیات رُخصت ہوگئی ہیں، بلکہ فکر و عمل کی سچائی کے سوتے پھوٹنا بند ہو کرعقل و شعور ماؤف ہوگئے ہیں۔
اس ساری فضا میں مختلف جماعتوں کے کارکن غور و فکر سے زیادہ جانب داری سے سوچنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ جو کل تک سیاست میں ایک ادارے کی مداخلت کو ملک و قوم کی تباہی سے تعبیر کررہے تھے، آج وہ اسی ادارے کو جمہوریت کا محافظ قرار دینے پر تُلے ہیں اور موجودہ حکومت کے مہنگائی اور تشدد سمیت ہر نامعقول اور غیرپسندیدہ اقدام کے دفاع پر کمربستہ ہیں۔ الغرض! ہر معاملے میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، جو غور و فکر اور سوچنے کے عمل کی قاتل ہے۔ حتیٰ کہ ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ (rajim change operation) میں امریکی کردار تک سے منکر ہوئے جاتے ہیں، حال آں کہ اس امر میں اب بہ قولِ شاعر ؎
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
جمہوری تماشہ اور گماشتہ میڈیا
کسی بھی معاشرے میں حقیقی سیاسی عمل _ جو کسی بھی دباؤ سے آزاد ہو _ اس معاشرے کے مسائل کا حقیقی حل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں سیاسی عمل کٹھ پتلیوں کے سہارے اَن دیکھی قوتیں ک…
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور بیسویں صدی کی مسلم فکر
اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی ب…
وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !
پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …