جمہوری تماشہ اور گماشتہ میڈیا

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
اگست 25, 2022 - شذرات
جمہوری تماشہ اور گماشتہ میڈیا

کسی بھی معاشرے میں حقیقی سیاسی عمل _ جو کسی بھی دباؤ سے آزاد ہو _ اس معاشرے کے مسائل کا حقیقی حل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں سیاسی عمل کٹھ پتلیوں کے سہارے اَن دیکھی قوتیں کنٹرول کرتی ہوں، وہ معاشرے نت نئے بحرانوں کی زد میں رہتے ہیں۔ وہاں مسائل کے مصنوعی حل بحرانوں سے مزید بحرانوں کے جنم لینے کا سبب بنتے چلے جاتے ہیں اور بغل بچہ جمہوریت خود شیطان کی آنت ثابت ہوتی ہے۔ جیساکہ ہم پاکستان کی تاریخ میں روز ِاوّل سے اس کا مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے، یہاں ابھی تک عوامی نمائندگی کا حقیقی نظام جڑ نہیں پکڑ سکا اور جمہوری تماشے کے نام پر عوام اور جمہوریت دونوں کے ساتھ ایک کھلواڑ جاری ہے۔

اس سال پاکستان میں مارچ 2022ء کو حزبِ مخالف کی ساری سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف خراب حکمرانی اور معیشت کی بداِنتظامی کے الزام کے تحت اسمبلی کا جواجلاس بلانے کی ریکوزیشن اور تحریکِ عدمِ اعتماد سے بحران پیدا ہوا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ تاہم 26؍ جولائی کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ کے فیصلے نے دونوں فریقوں کو سستانے کا کچھ وقت دے دیا ہے۔

پاکستان میں جاری نا پختہ اور بے صیقل سیاسی عمل کے نتیجے میں ابھی عوامی نمائندگی کے حقیقی نظام کی اس منزل کے نشانات تو کہیں دکھائی نہیں دیتے، لیکن کچے گھڑے پر سرمایہ داری کے دریا میں اس مزعومہ سیاسی سفر سے سیاست کے طالبِ علموں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے اور اس عمل کا ہر کردار ایسا غلطاں و پیچاں ہے، جسے واضح کرنا اہلِ دانش پر لازم ہے۔

سب سے پہلے تو پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے حالیہ اس واقعے نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے کہ دُنیا پر اپنے سرمایہ داری نظام کی بدولت گرفت رکھنے والے ممالک کو اگر چھوٹے ملکوں میں بغل بچہ جمہوریت میں اگرکسی سیاسی جماعت یا لیڈرسے اختلاف ہو جائے تو اپنے داخلی مہروں کے ذریعے یا اَن دیکھے دباؤ کے تحت ان جمہوری تماشے کا تار و پود ایسے بکھیرا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے نشانِ عبرت بن جائے۔ اس سے جمہوری تماشے کے آمرانہ مزاج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ گویا بہ قولِ اقبالؒ ابھی تک  ع

ہے  وہی  ساز ِ  کہن  مغرب  کا  جمہوری  نظام

دوسری طرف میڈیا اور اس پر براجمان موسمی دانش وروں کی کھیپ کا وہ کردار ہے، جو ایک خاص بیانیے کو لے کر عوام کے ذہنوں پرحملہ آور ہوتی ہے، جیسے کہ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے والے ممبران کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج بارے انھوں نے اپنے تجزیوں کے سبب ایک ایسا سماں باندھا کہ قوم پی ڈی ایم اتحاد کو نجات دہندہ تسلیم کرچکی ہے اور اب کی بار اقتدار سے بے دخل کی جانے والی پارٹی اس کے ہاتھوں کھیت رہے گی، لیکن پنجاب کی نوجوان نسل ابھی نئے عشق کی اسیر ہے۔ اس نے ان متعدد جماعتوں کے اتحاد کو ایسی عبرت ناک شکست دی کہ اینکروں کی خواہشات کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ اس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کا میڈیااپنے مالی اور گروہی مفادات کا محافظ ہے۔ اوریہ ایک تجارت ہے، جس میں تجزیہ نگار ایک بروکر کا کردار اداکرتے ہیں۔ مالکان نے ایسے تجزیہ نگار پال رکھے ہیں کہ واقعات و حالات کچھ بھی ہوں، انھوں نے اپنے مالکان کی حسبِ خواہش حقیقت کے خلاف وہ تجزیہ پیش کرنا ہے، جو میڈیا گروپ کے دھڑے بندیوں کی فضا کی آبیاری کرے اور مسلسل خبروں اور تجزیوں سے عوام کی رائے پر اثر انداز ہوتا رہے۔

یہ فضا کسی بھی معاشرے میں نئے خیال اور رُجحان کے خلاف بند باندھنے کی ایک ناکام کوشش ہوتی ہے، جس کے کبھی بھی مثبت نتائج نہیں آتے۔ یہ سرمایہ داری نظام میں میڈیا کی وہ پالیسی ہے، جس میں میڈیا سرمایہ داروں کا ہوتا ہے اور وہ مکمل طور پر اُن کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ وہ خبروں، تجزیوں اور رِپورٹوں میں وہی کچھ دکھانے کی کوشش کرتا ہے، جو سرمائے اور وسائل پر قابض طبقوں کی خواہش ہوتی ہے۔

جب متعدد جماعتی حکومتی اتحاد کے مقابلے میں اقتدار سے نکالی جانے والی پارٹی، جس کے بارے عوام بہت جذباتی ہوچکے تھے، 20 میں سے 15 نشستیں لے چکی اور ایوان میں اس کی سادہ اکثریت ثابت ہوگئی تو نتائج کو ایک گجراتی خط کے ذریعے بدلنے کی کوشش کی گئی، جس سے الیکشن کے ذریعے حل کیا جانے والا بحران مزید گہرا ہوگیا۔

یہاں پر ایک مُذمِن مرض کو مرکزِ نگاہ بنائیے! وہ یہ کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ہارتی ہوئی جمہوری قدروں کا پاس کرنے کے بجائے کسی چالاکی، شرارت اور ممبران کی خریدوفروخت یا بے اصولی کی چھری سے جمہوریت کو ذبح کرنے کی آخری دم تک کوشش کرتی ہے۔ اور اس ملک کی تاریخ ہے کہ یہاں جمہوریت ہمیشہ نیم مردہ مریضوں، مارشل لاء، آمروں، عدالتی فیصلوں، ٹیلی فون کالز، بیرونی سائفرز اور خفیہ رکھے جانے والے مختلف خطوط کی زد اور ٹھوکروں پر رہی ہے۔

اس گماشتہ جمہوریت کے سارے پراسیس میں ووٹرز لسٹ کی تیاری اور پبلک پولنگ اسٹیشنز سے لے کر جمہوریت کے اعلیٰ ایوانوں؛ سینٹ، نیشنل اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں تک میں عوام کے ووٹ اور رائے کی ایسی ناقدری کی جاتی ہے کہ کبھی یہ ووٹ خریدا جاتا ہے اور کبھی بیچا جاتا ہے۔ کبھی قبول نہیں کیا جاتا اور کبھی گِنا ہی نہیں جاتا۔ کبھی بلاوجہ اعتراض لگاکر مسترد کردیا جاتا اور کبھی اس کے خلاف کوئی اَور ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور کبھی منتخب ایوان ہی کو چلتا کردیا جاتا ہے۔ انتخابات کے ذمہ دار ادارے ’صوبائی الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے ووٹرز لسٹ میں 40 لاکھ لوگوں کو فوت شدگان لکھا گیا، جس کو عدالت میں چیلنج کرنے پر اسے ڈیٹا انٹری کی انسانی غلطی قرار دے کر اصلاح کی گئی۔ اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ملک میں جمہوریت کی دعوے دار جماعتوں کے چیمپیئن بھی شامل ہوتے ہیں ۔ 

اور یہ ایک آمرانہ اور جمہوریت شکن روایت کا تسلسل ہے، جس کا آغاز قیامِ پاکستان کے وقت ہوا۔ وہ اس طرح کہ معروف خدائی خدمت گار رہنما باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد الجبار خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے، مگر فقط آٹھ دن بعد یعنی 22؍ اگست 1947ء کو اس وقت کے گورنر جنرل نے ان کی وزارت برطرف کر دی، حال آںکہ اس وقت باچا خان ، کانگریس کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو قبول کرنے کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔

حالیہ عدالتی فیصلے نے جمہوریت کے دعوے داروں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کو  بہ ظاہرعارضی اِفاقہ فراہم کیا ہے، لیکن اس فیصلے نے اس جمہوری تماشے کی حقیقت کو بھی واضح کردیا ہے کہ جمہوریت کے دعوے داروں میں اتنا بھی ظرف نہیں کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو پُر اَمن اور جمہوری طریقے سے اقتدار سپرد کرسکیں۔ اور مزید برآں ارکان کی خریدوفروخت نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اس نظام کی اَساس اَخلاق، اُصول، جمہوریت اور صالح روایات کے بجائے صرف اور صرف زر اور سرمائے پر ہے۔   (مدیر)

ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور بیسویں صدی کی مسلم فکر

اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی ب…

مولانا محمد عباس شاد جون 12, 2021

وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !

پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …

مولانا محمد عباس شاد جولائی 10, 2021

افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!

2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…

مولانا محمد عباس شاد اگست 10, 2021

ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیلا جائے

گزشتہ دنوں 14؍ اپریل 2021ء کواچانک پورا ملک پُرتشدد مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کی لپیٹ میں آگیا، جس کے باعث ملک کی اہم شاہراہوں پر رُکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ جس سے ملک …

مولانا محمد عباس شاد مئی 13, 2021