فخر العلما سیّد شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ

وسیم اعجاز
وسیم اعجاز
اگست 06, 2020 - سوانح عمری
فخر العلما سیّد شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ

بر عظیم پاک و ہند کی تحریکِ آزادی ایسے کئی اَبطالِ حریت کی جدو جہد سے بھری ہوئی ہے، جنھوں نے جرأت و بہادری کے ساتھ ظلم کے استبدادی نظام کا مقابلہ کیا اور انگریز سامراج کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوئے۔ بیسویں صدی کی ابتدا ایسے حریت پسندوں کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔ انھیں میں ایک نام مولانا سیّد محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کا بھی ہے۔ 
مولانا سیّد محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کا تعلق دائرۂ شاہ اجمل‘ الٰہ آباد (یو۔پی، انڈیا) سے ہے۔ شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کے والد ِماجد حضرت سیّد محمد زاہد الٰہ آبادیؒ کے دادا حضرت شاہ محمد جانؒ حضرت شاہ محمد اجمل الٰہ آبادیؒ کے نواسے تھے۔ شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کی پیدائش ۱۲۹۲ھ / 1875ء میں اسی خانوادے میں ہوئی۔ انھوں نے علم و معرفت کے ا سی ماحول میں نشوونما پائی۔ ابتدائی تعلیم الٰہ آباد ہی میں حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میںشاہ محمد چشتی صابری الٰہ آبادیؒ، حافظ عبدالکافی نقشبندیؒ (بانی جامعہ سبحانیہ الٰہ آباد)، مولانا منیر الدین ناروی الٰہ آبادیؒ، مولانا شاہ عبید اللہ کان پوریؒ اور مولانا شاہ احمد حسن کان پوریؒ شامل ہیں۔ 
۱۳۰۹ھ / 1892ء میں مدرسہ فیضِ عام کان پور سے فراغت کی سند حاصل کی۔ 1912ء میں اپنے والد ِگرامی سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوئے۔ مولانا شاہ محمد بشیر اجملیؒ اور مولانا شاہ محمد عبدالعلیم قادری رشیدیؒ نے انھیں شرفِ خلافت سے نوازا۔ 
شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ اسلامی ہند کے ممتاز علما و مشائخ کی صفِ اوّل میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ علومِ اسلامیہ میں کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ شمشیر زنی میں اپنی مثال آپ اور بے باکی و جرأت میں ضرب المثل تھے۔ حریت و آزادی کے تصورات سے لبریز اِن کی تقاریر میں ایک خاص شان ہوا کرتی تھی۔ پورا ملک ان کے مواعظ ِحسنہ سے فیض یاب تھا۔ قومی و ملّی خدمات ان کے عظیم ترین کارنامے ہیں۔ 
جب انگریزی جارحیت کے خلاف تحریکِ خلافت کی بنیاد پڑی تو محمدفاخر الٰہ آبادیؒ اس وقت بننے والی خلافت کمیٹی کے اراکین میں سے تھے۔ نومبر 1919ء میں خلافت کانفرنس کے بعد مولانا عبدالباریؒ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میںجو علما شریک تھے، ان میں ان کا نام بھی نمایاں ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے بانی اراکین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر جمعیت علمائے ہند کی سب سے پہلی مجلسِ منتظمہ میں شامل تھے۔ انھوں نے تحریکِ خلافت کے مقاصد کی ترویج کے لیے پورے ملک میں طوفانی دورے کیے اور تحریکِ خلافت کو ہندوستان بھر میں مضبوط کیا۔ 
شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدم تعاون میں پہلے ہندوستانی مسلمانوں میں سے تھے، جنھیں حصولِ آزادی کی جدوجہد کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی دینی و ملّی خدمات کا اعتراف نواب محمد اسماعیل خاں وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی نے 19؍ مارچ 1920ء کو ہونے والی یومِ خلافت کی تقریب میں اپنے خطبۂ اِستقبالیہ میں بھی کیا۔ شاہ محمد فاخرؒ کا شمار ان 500 علمائے کرام میں بھی ہوتا ہے، جنھوں نے ترکِ موالات (تحریکِ عدمِ تعاون) کے حق میں متفقہ فتویٰ دیا تھا۔ تحریکِ خلافت کے سلسلے میں جب گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو 21؍ جولائی 1920ء کو ان کے خلاف ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا اور انھیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے ساتھ 5 سیر مونجھ بانٹے کی سزا ہوئی۔ اس وقت انھوں نے برجستہ یہ شعر کہے    ؎


آنکھ ہے محوِ تجلی ، وصل سے دل شاد  ہے
قید میں بھی طبع بے خود ، ہر طرح آزاد ہے
بیڑیاں  مجھ  کو  پہننے  میں  ذرا  ذلت  نہیں
باپ  دادا  کا   طریقہ  ،  سنتِ   سجاد   ہے


شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت انھیں گرفتار کیا گیا، اس وقت تقریباً 10 ہزار افراد کا مجمع جیل کے دروازے پر موجود تھا۔ اس مجمع میں جمعیت علمائے ہند کے ذمہ داران، خلافت کمیٹی کے سربراہان کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کی بھی کثیر تعداد شامل تھی۔ 
تحریکِ آزادی کے عظیم رہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ نے جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کے خطبہ صدارت نومبر 1920ء میں سیّد شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کی گرفتاری کی پُرزور الفاظ میں مذمت فرمائی تھی اور دیگر فرزندانِ ہند کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو مسلمانوں پر ظلم قرار دیا تھا۔ ہندوستان بھر میںمولانا شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ کو ان کی خدمات اور علمی مرتبے کی وجہ سے ’’فخرُ العلما‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ قریبی حلقوں میں ’’راشد میاں‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے، جب کہ شعرو شاعری سے شغف کی وجہ سے ان کا قلمی نام ’’بے خود الٰہ آبادی‘‘ تھا۔ 
تحریکاتِ آزادی میں نہ صرف یہ کہ شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ نے خود حصہ لیا، بلکہ اپنے قریبی لوگوں اور عزیزوں کو بھی ان تحریکات میں شامل کروایا۔ ان میں نمایاں نام شاہ  حفیظ عالم جنیدی (خلافت کمیٹی کے سرگرم رکن) اور موصوفؒ کے فرزند شاہ محمد شاہد فاخریؒ بھی تھے۔ شاہ محمد شاہد فاخریؒ بھی ملک کی نامور شخصیت تھے۔ تحریکِ آزادی کے سر گرم کارکن تھے۔ تحریکِ خلافت کے سلسلے میں انھوں نے بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تین بار گرفتار کیے گئے تھے۔ جمعیت علمائے ہند یو۔پی کے صدر تھے اور تقسیمِ ہند کے بعد کانگریس کے پلیٹ فارم پر یو۔پی اسمبلی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 
شاہ محمد فاخر الٰہ آبادیؒ زندگی کے آخری ایام میں کمزوری کے باعث عملی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہ کر سکتے تھے۔ اَن تھک جدوجہد اور امور کی شبانہ روز انجام دہی نے انھیں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا کردیا تھا۔ ان کا وصال ۷؍ صفر المظفر ۱۳۴۹ھ / 5؍ جولائی 1930ء کو ہوا اور شیخ محمد افضل الٰہ آبادیؒ کے روضۂ منورہ الٰہ آباد میں تدفین عمل میں لائی گئی۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
وسیم اعجاز
وسیم اعجاز

جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA  کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ،  تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں  سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔