سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار کون ہے ؟

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
ستمبر 11, 2022 - شذرات
سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار کون ہے ؟

اس وقت پاکستان کو بدترین سیلاب کا سامنا ہے، جس نے بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخواہ کے علاقوں سوات، مردان، نوشہرہ و دیگر، جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع، کشمیر، گلگت اور  بلتستان میں انسانی آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہے۔ لوگ بے خانماں سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ طوفانی سیلاب کی شدت نے سڑکوں، پُلوں اور راستوں کو شدید متأثر کیا ہے، جس سے لوگوں کی نقل و حمل بھی بُری طرح متأثر ہوئی ہے۔ اس صورتِ حال نے نہ صرف لوگوں کو اُن کے گھربار سے محروم کردیا ہے، بلکہ ان کے مال و مویشی تک بھی طوفانی ریلوں میں بہہ گئے ہیں اور لہلہاتی فصلیں بھی تباہ ہوچکی ہیں۔ اب تک کے تخمینوں کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ انسان زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ کم و بیش پانچ لاکھ مویشی سیلابی ریلوں کی نظر ہوچکے اور تقریباً 30 ملین سے زیادہ آبادی بے گھرہوچکی ہے۔ ساری صورتِ حال میں ان کے ریلیف کا کوئی ڈھنگ کا پروگرام کسی سطح پر نظر نہیں آتا اور لوگ یہ عذاب اپنی جانوں پر جھیل رہے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کا اپنے گھر بار، مال مویشی اور وسائل سے محروم ہوجانا معاشروں میں کئی ایک اَن دیکھے اَلمیوں کو جنم دیتا ہے، جس کی سزا معاشرے ایک لمبے عرصے تک جھیلتے ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا کے باعث ایسی ایسی کرب ناک ویڈیوز اور تصاویر نظر سے گزر رہی ہیں، جو روحِ احساس کو تڑپا دیتی ہیں۔ جب تک کیمرے کی آنکھ ریاست یا صحافت کے کنٹرول میں تھی، تب تو یہ دستور تھا کہ اربابِ اقتدار جتنا دکھانا چاہتے تھے، ملک کے ذرائع ابلاغ اتنا ہی دکھاتے تھے، لیکن اب کے تو ہربندے کے ہاتھ میں موبائل کی شکل میں کیمرہ ہے اور وہ آزادانہ رپورٹنگ کرتے ہیں، جس سے دل دوز مناظر سامنے آتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں قدرتی آفات _ جو کہ قوموں کی اجتماعی سرکشی و نافرمانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیات کی وجہ سے اس کرۂ ارض پر آتی رہی ہیں _ ہمیشہ سے انسانی آبادیوں کو متأثر کرتی چلی آئی ہیں، جیساکہ زلزلوں، طوفانوں، بارشوں، سیلابوں اور جنگوں کی تباہ کاریوں کی باقاعدہ ایک تاریخ رقم ہوچکی ہے۔ لیکن انسانیت کے اس ترقی یافتہ عہد میں کتنے ہی ملکوں اور قوموں نے ان غیر معمولی آفات سے بچنے کے لیے بہت سے حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں اور اس حوالے سے وہ خاطر خواہ نتائج بھی لے رہے ہیں۔ جن ملکوں میں عام دنوں میں پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے، ان کے لیے یہ پانی سیال سونا ہے۔ اگر اسے محفوظ کرلیا جائے تو اس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، بنجر زمینوں کو زرخیزی سے بدلا جاسکتا ہے۔ اگر اس کی منصوبہ بندی نہ کی جائے تو یہ نہ صرف ضائع ہوجاتا ہے، بلکہ تباہی و بربادی کا سبب بھی بنتا ہے۔ پھر ایسے بے منصوبہ ملکوں میں کبھی خشک سالی آتی ہے اور کبھی سیلاب، یعنی کبھی وہ پیاس سے مرتے ہیں اور کبھی ڈوب کے۔

پاکستان میں یہ سیلاب کوئی پہلی بار نہیں آیا۔ ہمارے ہاں بار بار آنے والے سیلابوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی بھی ایک تاریخ ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار ہربار اسے غیر معمولی ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ قرار دے کر اور معمولی ریلیف آٹے اور گھی کے چند ڈبے اور تھیلے تقسیم کرکے بات آئی گئی کردیتے ہیں، جب کہ اس تباہی کے آگے مستقل بندھ باندھنے اور پائیدار سائنسی بنیادوں پر کوئی سسٹم بنانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اگر چہ ہمارے ہاں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) جیسے ادارے تو موجود ہیں، لیکن وہ اپنی ناقص کارکردگی کے باعث قوم کو کوئی نتیجہ خیز ریلیف نہیں دے سکتے۔ بنگلا دیش _جو کبھی ہمارے ہی ملک کا حصہ تھا _ اسے اپنے جغرافیائی محل وقوع کے سبب ہمیشہ خوف ناک سیلابی ریلوں کا سامنا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی قوم اور ملک نے ناقابلِ برداشت نقصانات اٹھائے ہیں، لیکن اب انھوں نے بھی ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر سے کافی حد تک ان نقصانات پر قابو پالیا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، یہاں کے سسٹم کو مستقل بنیادوں پر ایک ایسا جدید سائنسی ماڈل پر مبنی انفراسٹرکچر قائم کرنا چاہیے، جو بھاری سیلابوں کی تباہ کاریوں پر قابو پاسکے۔

ایسے موقعوں پر ہماری حکومتیں بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں، مالیاتی اداروں اور ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مدد کی طلب گار ہوتی ہیں، لیکن ایسی قومی آزمائش کے وقت ہمارے غیر سنجیدہ اقدامات کے باعث بین الاقوامی برادری بھی ہمارے اوپر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں، جیساکہ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد اقوامِ متحدہ کی ایک سفیر نے جب سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تو اس نے جگہ جگہ انسانی المیوں کا مشاہدہ کیا، لیکن اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی پیشانی پر اسے پریشانی کے پسینے کی ایک بوند نظر نہ آئی، جب کہ عام لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ اور حکومت اس سفیر کے لیے شان دار ظہرانوں اور عشائیوں کے اہتمام میں مصروف تھی، بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم گیلانی اور اُن کا خاندان اس کے ساتھ فوٹو سیشن کے لیے بے تاب تھا۔

اس ملک کے سسٹم کی خرابی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ملکی و غیرملکی فنڈنگ کے ذریعے ہماری حکومتیں پہلے اس پیسے سے مصیبت میں گھرے لوگوں کے لیے اتھارٹیز قائم کرتی ہیں، جن پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ نئے دفاتر کا قیام، نئی گاڑیوں کی خریداری اور افسروں کی مراعات، گویا مصیبت میں مرنے والوں کی ہڈیوں سے اپنے محلات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محتاجوں کی مدد کے بجائے انتظامیہ اور بیوروکریسی کے اخرجات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سیلاب جہاں بہت سے خاندانوں کے لیے تباہی کا باعث ہوتا ہے، وہاں ایک انتہائی محدود طبقے کی خوش حالی کا مژدہ لے کر آتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں آنے والے سیلابوں میں کسی بھی حکومت نے نہ تو کوئی مؤثر حکمتِ عملی تشکیل دی اور نہ ہی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے کبھی کو ئی منصوبہ بندی کی۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہر آنے والے سیلاب پر قابو پانے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے عوامی نقصانات کے ازالے کے لیے پاکستان کی جمہوریت کی دعوے دار ہر پارٹی کی حکومت مجرمانہ غفلت کا شکار رہی ہے۔ اب عوام اتنے باشعور ہوچکے ہیں کہ وہ حکومتوں کی سنگین بد انتظامی اور بدترین نااہلیوں کو نظر انداز کرکے ان سیلابوں کو محض عذابِ الٰہی قرار دے کر نا اہل قیادت کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالنا چاہتے، بلکہ وہ ماضی اور حال کے مجرموں سے حساب مانگتے ہیں۔     (مدیر)

ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور بیسویں صدی کی مسلم فکر

اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی ب…

مولانا محمد عباس شاد جون 12, 2021

وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !

پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …

مولانا محمد عباس شاد جولائی 10, 2021

افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!

2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…

مولانا محمد عباس شاد اگست 10, 2021

ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیلا جائے

گزشتہ دنوں 14؍ اپریل 2021ء کواچانک پورا ملک پُرتشدد مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کی لپیٹ میں آگیا، جس کے باعث ملک کی اہم شاہراہوں پر رُکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ جس سے ملک …

مولانا محمد عباس شاد مئی 13, 2021