عَنْ أبیْ مَسعُود الغِفَاری رَضِیَ اللّٰہ عنہ، قال سمعتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ و أھَلّ رَمَضان فقال: ’’لَوْ یَعْلَمُ العِبادُ مَا رَمَضانُ؟ لتمنّتْ أُمّتِیْ أن تکونَ السَّنَۃ کُلَّھا‘‘۔ (الجامع شعب الایمان، حدیث: 3361)
(حضرت ابومسعود غِفاریؓ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز کے موقع پر انھوں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر لوگ رمضان کی اہمیت کو سمجھ جائیں تو وہ یہ تمناکرنے لگیں کہ پورا سال ہی رمضان ہو‘‘۔)
زیرِنظر حدیث رمضان المبارک کے فضائل کے حوالے سے قرآن و حدیث میں مذکور ارشادات کا نہایت جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتی ہے۔ چناں چہ قرآن نے روزوں کی فرضیت کا اہم مقصد لعلکم تتّقون بیان کیا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ رمضان کے روزوں کے ذریعے تم پرہیزگار بن جائو۔ تقویٰ کی تکمیل دو پہلوئوں سے ہے: ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد کا قیام، یعنی متقی وہ ہوگا جو احکاماتِ شرعیہ کا پابند ہو، حقوق اللہ کی تمام نوعیتوں کو اخلاص کے ساتھ اختیار کرے اور اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لیے یکسوئی پیدا کرے۔ یوں انسان کے لیے اللہ کی رحمتوں کا حصول ممکن اور اس کا قرب آسان ہوجاتا ہے۔ دوسرا پہلو حقوق العباد کے حوالے سے ہے کہ متقی آدمی عدل و انصاف پر کاربند اور اَخلاق و صفات میں سیرتِ طیبہ کا پیروکار ہو اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
ایک موقع پر رمضان المبارک کی آمد سے قبل نبی اکرمﷺ نے خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں آپﷺ نے ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ مہینہ صبر اور برداشت کا مہینہ ہے‘‘۔ صبر کا اجر روزِ قیامت جنت کی صورت میں ملے گا۔ کسی بھی مؤمن کی زندگی کا اصل مقصد دُنیوی کامیابی کے ساتھ اُخروی کامیابی ہے کہ انسان کو جنت نصیب ہو اور اس کی روحانی ترقیات اور کمالات کا راستہ کھل جائے۔ اس نعمت کے حصول کے لیے روزہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے تو یہ اس کے لیے گزشتہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جائے گا‘‘۔ ایک اَور حدیث کی رو سے: ’’روزہ رکھ کر روزہ دار ایسے ہوجاتا ہے، جیسے دنیا میں آج ہی آیا ہو‘‘۔ یعنی اسے گناہوں کی نحوستوں اور اَثراتِ بد سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح کی متعدد آیات و احادیث ہیں جو اس حدیث مبارکہ کے مفہوم کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان آیات و احادیث کی روشنی میں مؤمن بجا طور پر یہ تمنا کرتا ہے کہ سارا سال ہی رمضان ہونا چاہیے، تاکہ اللہ کے قرب کا ایک یقینی راستہ اسے مل جائے، لیکن شریعت نے انسانوں کے لیے سہولت رکھی ہے اور سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
اچھے اور بُرے انسان کی پہچان
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قَالَ: خَیْرُکُمْ مَنْ یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَ یُؤْمَنُ شَرُّہٗ، وَشَرُّکُمْ مَنْ لَّا یُرْجٰی خَیْرُہٗ وَلَا یُؤْمَنُ شَرُّہٗ۔ (الجامع للتّرمذی، حدیث 2263) (سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول الل…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …