برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ آزادی میں خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا قائدانہ کردار بلاشبہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔اس خانقاہ نے اکابرینِ رائے پور کی صورت میں شمعیں روشن کیں، جنھوں نے طالبینِ حق و صداقت اور آزادی کے متوالوں کو اندھیری راہوں میں شعور و فکر کی روشنی عطا کی۔
انھیں اکابرین میںبانی خانقاہِ عالیہ رائے پور حضرت عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کے حقیقی نواسے اور خانقاہ کے تیسرے مسند نشین قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ بھی ہیں۔ ان کی ولادت ۱۰؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۳ھ / 16؍ جولائی 1905ء بروز جمعتہ المبارک کو ہوئی۔ ان کے والد ِگرامی چوہدری تصدق حسینؒ، قطبِ ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے بیعت اور دینی فہم و بصیرت کے حامل فرد تھے۔ ان کا نام ’’عبدالعزیز‘‘ حضرت گنگوہیؒ کے ایما پر حضرت عالی رائے پوریؒ نے تجویز فرمایا تھا۔
حضرت رائے پوریؒ حفظ ِقرآنِ حکیم کی تکمیل کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں تعلیم کی غرض سے تشریف لے گئے، جہاں سے 1924ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ حدیث شریف کی تعلیم حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ سے حاصل کی۔ حضرت عالی رائے پوریؒ کی توجہِ باطنی مستقل ان کی جانب رہی۔ متعدد بار حضرت عالی رائے پوریؒ کو قرآنِ حکیم سنایا۔ حضرت عالیؒ کے آخری ایام میں انھوں نے خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دن رات حضرتؒ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ حضرت عالیؒ کے وصال کے بعد جب یہ تجویز رکھی گئی کہ اب خانقاہ کی ذمہ داری شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ سرانجام دیں تو حضرتؒ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:’’ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میں تو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کا ایک خادم بن کر رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ مسلسل 45 سال انھوں نے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خادم کی حیثیت سے امور سرانجام دیے۔
حضرت عالی رائے پوریؒ کے بعد خانقاہ کا مکمل انتظام و انصرام ان کے سپرد تھا۔ ان ہی کہ کوششوں سے خانقاہ کی نئی عمارت تعمیر کروائی گئی۔ خانقاہ میں ضرورت کی تمام اشیا اپنے گھر سے لاکر رکھوا دیں، تاکہ مہمانوں کو کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ مہمانوں کی خدمت اور حضرت عالی رائے پوریؒ اور حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ساتھ ان کی محبت، عقیدت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے دونوں مشائخ کی مجسم تصویر بن گئے، یہاں تک کہ وہ اپنے شیخ شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی مکمل مشابہت اختیار کر گئے تھے۔
قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے وصال 1962ء کے بعد مسلسل 30 سال تک خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور کی مسند پر رونق افروز رہے۔ اس دوران ولی اللّٰہی فکروعمل کی وارث اس خانقاہ کی جامعیت کو اپنے مشائخ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قائم و دائم رکھا۔ حریت و آزادی کے نظریے سے سرِمو انحراف نہیں کیا۔ قرآنِ حکیم کی انقلاب آفریں تعلیمات کو عام کرنے کے لیے جو مراکز اپنا کردار ادا کر رہے تھے، ان کی سرپرستی فرمائی اور مشاورت سے مستفید فرماتے رہے، جن میں مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور، دارالعلوم دیوبند اور جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سرِفہرست ہیں۔
وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ میں پچاس کی دہائی بڑا اہم دورانیہ تصور کیا جاتا ہے، جس میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کے نام پر مختلف گروہوں کو پروان چڑھایا۔ فرقہ واریت اور بے شعوری کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ باصلاحیت نوجوانوں پر مشتمل ایسا کیڈر تیار کیا جائے، جو مفاد پرستی اور منافقت کے بجائے اخلاص اور للہیت کی بنیاد پر سماج میں مثبت قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس مقصد کے لیے حضرت رائے پوریؒ نے اپنے نوجوان صاحب زادے حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کو تیار کیا اور ان کے کاموں کی نگرانی و سرپرستی فرمائی۔
1967ء میں جب حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے ’’جمعیت طلبائِ اسلام‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی ایک جماعت تیار کی تو انھوں نے اس جماعت کی مکمل سیاسی رہنمائی، نگرانی اور سرپرستی فرمائی اور نوجوانوں کو بروقت صحیح سمت میں لگایا۔ اس جماعت کی کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اس کے نمائندگان موجود تھے۔جمعیت طلباء اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو آپؒ نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس وقت حضرت شیخ الہندؒ کی توجہ نوجوانوں کے ساتھ ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ نے 1970ء کی دہائی میں پاکستان میں قادیانیت کے خلاف تحریک میں سرپرستی اور قائدانہ کردار ادا کیا۔
ولی اللّٰہی تحریک سے وابستہ ہونے کے لیے تشنگانِ حق کی تعداد بڑھتی گئی اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب کو بھی اس میں شامل کرنے کا موقع آیا تو اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی جائے، جو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مشن پر کاربند ہو اور ان کے بتلائے ہوئے نظریات پر علمی ڈھانچہ تشکیل دے سکے۔ اس مقصد کے لیے 1987ء میں ’’تنظیم فکر ِولی اللّٰہی پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی تو حضرت شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ نے تادمِ آخر اس تنظیم کی سرپرستی فرمائی۔
خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور ولی اللّٰہی فکرو عمل کی حقیقی وارث ہے۔ اسی نسبت سے حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ نے ہر اس عمل کی مذمت فرمائی، جو اکابرین کے بارے میں غلط فہمی کا باعث بنے۔ خاص طور پر امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے بارے میں ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کے آگے ڈھال بن کر ان اکابرین کے مشن کی تائید فرماتے رہے۔ ان کے 30 سالہ جانشینی کے دور میں خانقاہِ رائے پور سے وابستہ لاکھوں لوگ فیض سے مالامال ہوئے اور انسانیت دوستی کا شعور لے کر یہاں سے گئے۔ اس ولی اللّٰہی قافلے کی سربراہی کے لیے حضرت رائے پوریؒ نے اپنے بڑے صاحبزادے مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کو منتخب فرمایا۔ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کثرتِ امراض کے سبب علیل رہنے لگے تو خانقاہ کا تمام نظام شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے سپرد فرما دیا۔ علم و آگہی، حریت و آزادی اور تزکیہ و طریقت کی روشنی پھیلاتا یہ آفتاب 3؍ جون 1992ء کو غروب ہوگیا۔ حضرت رائے پوریؒ کی تدفین رائے پور میں ان کے نانا قطبِ عالم شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کے پہلو میں عمل میں لائی گئی۔
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔