حریت و آزادی کے ایک عظیم مجاہد اور بر عظیم پاک و ہند کی بیسویں صدی کی متحرک شخصیات میں ایک نمایا ں نام رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا ہے۔ ان کا شمار مولانا ابوالکلام آزادؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ، مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، حکیم اجمل خاںؒ، ڈاکٹر مختار احمدانصاریؒ کے ممتاز رفیقوں میں ہوتا ہے۔ وہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے مخلص متوسل اور مرید تھے۔ سیاسی طور پر انھی سے رہنمائی لیتے تھے۔
رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ۱۱؍ صفر ۱۳۱۰ھ /3؍ جولائی 1892ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حضرت مولانا محمد زکریاؒ لدھیانہ کے معروف عالمِ دین اور مفتیٔ اعظم پنجاب تھے۔ موصوفؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا مولانا شاہ محمد لدھیانویؒ سے حاصل کی۔ 1903ء میں دادا جان کے وصال کے بعد مولانا نور محمد لدھیانویؒ کے ’مدرسہ حقانی‘ لدھیانہ میں داخل کروائے گئے، جہاں ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد وہ جالندھر اور امرتسر میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔
جنگِ بلقان کا آغاز ہوا تو مولانا حبیب الرحمن کے دل میں انگریزوں کے خلاف نفرت نے شدت اختیار کرلی تھی۔ اسی دوران اپنے ہم مکتبوں کے ساتھ مل کر مولانا نور محمد لدھیانویؒ کے ’اسلامیہ سکول‘ کے میدان میں ایک جلسے کا اہتمام کیا۔ 1857ء کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا جلسہ تھا۔ اس جلسے میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اور تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی تھی۔ یہ جلسہ ان کی زندگی میں ایک سنگِ میل تھا، جہاں سے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز بھی کہا جا سکتا ہے۔ 1917ء میں تعلیم کی غرض سے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں ان کا تعارف اس دور کی اکابر شخصیات سے ہوا۔ ان میں حضرت اقدس شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ اور شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے نام سرِفہرست ہیں۔
1919ء میں تحریکِ خلافت کے ابتدائی دور سے ہی جلسوں میں شرکت کرنے لگے۔ جلیانوالہ باغ کے سانحے نے مولاناؒ کی تحریکی سرگرمیوں کے لیے مہمیز کا کام دیا۔ وہ 1920ء سے 1950ء تک جمعیت العلمائِ ہند کے رکن رہے۔ اپنے سیاسی تدبر کی بنیاد پرمجلسِ احرار اور جمعیت العلماء ہند کوآپس میں ملائے رکھنا یقینا ان کا کمال تھا۔ وہ پنجاب میں تحریکِ خلافت کے روحِ رواں سمجھے جاتے تھے۔ نیز تحریکِ خلافت کی سینٹرل کمیٹی تمام اہم امور میں بذریعہ خط و کتابت ان کے ساتھ رابطے میں رہتی تھی۔ 1920ء میں تحریکِ خلافت اور 1921ء میں تحریکِ عدم تعاون میں سرگرم کردار ادا کرنے کی پاداش میں انھیں پابندِ سلاسل ہونا پڑا۔ اس کے بعد تحریکاتِ آزادی میں کام کرنے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً قید کا سامنا کرنا پڑا۔ 1921ء سے 1947ء تک انگریز سامراج نے انھیں متعدد بار گرفتار کیا۔ انھوں نے مجموعی طور پر 13 سال 6 ماہ جیلوں میں گزارے۔
لدھیانہ کے عوام مولانا حبیب الرحمنؒ سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے، جس کا ایک شان دار مظاہرہ 1922ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا، جب لدھیانہ کی جیل میں انگریز سامراج نے انھیں پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ اس کے بعد پورے شہر لدھیانہ سے ہزاروں کی تعداد میں عوام جلوس کی شکل میں احتجاج کے لیے نکلے، جن میں 5000 خواتین بھی شامل تھیں۔ اس جلوس نے حکومت پر ایک رعب قائم کردیا۔
1926ء میں لدھیانہ کی شاہی مسجد پر جب قادیانیوں نے قبضہ کرلیا تو اس کو چھڑوانے میں بھی مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا کردار نمایاں رہا۔ بعد میں اس مسجد کی تولیت بھی مولانا موصوفؒ کے سپرد کردی گئی، جسے انھوں نے بہ خوبی نبھایا اور آج تک ان کے خاندان کے پاس ہی ہے۔ 29؍ دسمبر 1929ء کو ’مجلس احرارِ اسلام‘ کے نام سے مسلمانانِ بر عظیم کے ایک پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی گئی۔ امیرِشریعت حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، چودھری افضل حقؒ، مولانا سیّد محمد دائود غزنویؒ اور مولانا مظہر علی اظہرؒ وغیرہ کا شمار اس تحریک کے بانیان میں کیا جاتا ہے۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ برسوں مجلسِ احرار ہند کے صدر رہے، جو ملک کی مقبول ترین جماعت بن چکی تھی۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ’’سوانح شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’اَحرار کی تحریک اگرچہ مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور چوہدری افضل حق مرحوم کی سیاسی ذہانت اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے اخلاص، جوش اور سحربیانی کا نتیجہ تھی، لیکن اس کے قالب میں جو دینی روح تھی، وہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے تعلق اور اخلاص و درد کا پرتَو تھی۔‘‘
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒؒ کا روحانی تعلق خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور سے تھا۔ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ پھر پوری زندگی اپنی انفرادی و اجتماعی اور خاص طور پر سیاسی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے حضرت رائے پوری ثانیؒ کی رہنمائی کو مشعلِ راہ بنا لیا۔ حضرت اقدسؒ کی مجالس میں بھی مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔
1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد لدھیانہ سے دہلی منتقل ہو گئے تھے۔ بقیہ زندگی کی تمام تر سرگرمیاں دہلی میں رہ کر سر انجام دیں۔جمعیت علمائِ ہند، تحریکِ خلافت، تحریکِ عدمِ تعاون، تحریکِ اَحرار اور ان سے متعلقہ متعدد پلیٹ فارمز پر اپنا بھرپور اور اَن تھک کردار ادا کیا۔ اپنی تمام زندگی وطن و ملت کی خدمات کے لیے وقف کردی۔
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا وصال بھی ٹھیک 66 سال بعد ۱۱؍ صفر المظفر ۱۳۷۶ھ / 2؍ ستمبر 1956ء کو ہوا۔ مجاہد ِملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے ان کی شخصیت کا ذکر اس طرح کیا ہے:
’’رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ اپنے سیاسی شعور، جوشِ عمل، اولوالعزمی اور جدوجہد کے امتیاز سے ہمیشہ نمایاں رہے۔ تحریکِ آزادی میں سرگرم حصہ لیا اور اس راہ میں بارہا قیدوبند کی شدید صعوبتیں برداشت کیں‘‘۔
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔