بیت الحکمت بغداد کا علمی ادارہ اگرچہ ہارون الرشید نے قائم کیا تھا،لیکن اس کو کمال کی بلندیوں تک پہنچانے اور ایک تحقیقی ادارہ بنانے کا سہرا مامون الرشید کے سر ہے۔ مامون الرشید کا علمی ذوق اعلیٰ درجے کا تھا، خصوصاً اسلامی علوم میں کمال درجے کی مہارت حاصل تھی۔ ایک واقعے سے ان کی علمی بلندپروازی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مولانا شبلی نعمانیؒ لکھتے ہیں کہ: جب مامون مصر کے دورے پر گئے تو ایک شخص ان کے پاس آئے اور ان کو مبارک باد دی کہ آج عراق، حجاز، شام اور مصر سب آپ کے زیرِنگیں ہیں اور حضور ﷺ کے چچا کی اولاد ہونا اس پر مستزاد ہے۔
مامون الرشید نے کہا کہ: ہاں! بجا فرمایا آپ نے، مگر ایک آرزو ابھی باقی ہے کہ مجلسِ عام ہو، حدیث کے شائقین موجود ہوں اور احادیث لکھنے والے میرے سامنے بیٹھے ہوں۔ وہ احادیث کے بارے میں پوچھیں اور میں سند کے ساتھ ان کو احادیث بیان کروں۔ احادیث پر اس قدر عبور کی و جہ یہ تھی کہ وہ بچپن میں ہی اس وقت کے چوٹی کے محدثین سے احادیث حاصل کر چکے تھے۔
اب وہ علومِ عقلیہ خصوصاً فلسفے کی طرف مائل ہوئے۔ علومِ عقلیہ کی طرف میلان کی ایک وجہ تو ان کا طبعی رُجحان تھا، مزید یہ کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب تخت پر جلوہ افروز ہیں، مامون نے قریب جا کر پوچھا: آپ کا نام؟ تو تخت نشین نے کہا: ارسطو۔ مامون پر خوشی کی ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ پھر سوال کیا کہ: حضرت! یہ بتائیے دنیا میں اچھائی و برائی کا معیار کیا ہے؟ تو ارسطو نے جواب دیا: جس کو عقلِ سلیم اچھا کہے، وہ اچھی ہے۔ مامون نے پھر کہا: مجھے کوئی نصیحت فرمائیے! تو کہا کہ: توحید اور اچھی صحبت کو لازم پکڑنا۔
مامون کا کچھ تو پہلے ہی علومِ عقلیہ کی طرف رُجحان تھا، کچھ اس خواب نے دلچسپی اَور بڑھا دی۔ صبح ہوتے ہی مامون نے قیصرِ روم کو خط لکھا کہ ارسطو کی جس قدر تصانیف مل سکیں دار الخلافہ بغداد کو روانہ کی جائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان خلفا کے معمولی خطوط بھی روم کے بادشاہوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے تھے۔ چناں چہ قیصر اس حکم پر عمل کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوا، لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ اس وقت فلسفہ اور دیگر علومِ عقلیہ روم اور اطرافِ روم میں گم نام ہو چکے تھے۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک راہب ملا، اس نے بتایا کہ یونان میں ایک مکان ہے جو قسطنطین کے زمانے سے بند ہے اور روم کے جتنے بھی حکمران اس کے بعد تخت نشین ہوئے، وہ اس مکان پر مزید تالے لگاتے گئے۔ قسطنطین نے فلسفے کی تمام کتابیں جو اس وقت دست یاب تھیں، اکٹھی کر کے اس مکان میں مقفل کر دی تھیں کہ فلسفہ و حکمت عام ہوئے تو دینِ عیسوی کو سخت نقصان ہو گا۔
راہب کی نشان دہی پر اس مکان کے تالے کھولے گئے تو بہت سی کتابیں محفوظ ملیں، لیکن قیصر کو اب یہ خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسی فیاضی کہیں مذہبی طور پر ممنوع نہ ہو۔ مشیروں سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ: یہ کتابیں بھجوانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ کہا کہ فلسفہ مسلمانوں میں پھیلا تو اُن کے مذہبی جوش و خروش کو ٹھنڈا کر دے گا۔ اس پر قیصر نے وہ تمام کتابیں پانچ اونٹوں پر لاد کر مامون کے پاس روانہ کر دیں۔ مامون نے تمام کتابوں کا عربی میں ترجمہ کروایا۔ اس کام پر مشہور فلسفی یعقوب بن اسحاق کندی کو مامور کیا، جو خود کئی زبانوں کا ماہر اور علمی تحقیق و ریسرچ پر ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
علامہ ابن خلدونؒ کا نظریۂ تعلیم
انسان علم و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے دیگر حیوانات سے ممتاز ہے۔ فکری قوت و استعداد کی وجہ سے وہ اُمورِ معاش پر غور کرتا ہے۔ دیگر اَبنائے جنس کے ساتھ معاملات …
علم دوست و علم نواز عباسی خلیفہ
ہارون الرشید خلافتِ بنوعباس کے تیسرے خلیفہ، ابوجعفر منصور کے بیٹے محمد مہدی تقریباً دس سال مسند ِخلافت پر فائز رہے۔ محمدمہدی فرض شناس حکمران کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کا دو…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
بنواُمیہ اَندلُس میں
عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی …