موسیٰ بن نصیر بن عبدالرحمن بن زید لخمیؒ تابعین میں سے تھے۔ انھوں نے مشہور صحابیٔ رسول حضرت تمیم داریؓ سے احادیث روایت کی ہیں، لیکن ان کی وجۂ شہرت مجاہدانہ کارنامے اور عدل و انصاف پر مبنی کامیاب حکمرانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق وہ قبیلہ بنولخم سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے لخمی کہلاتے ہیں۔ عہد ِفاروقیؓ میں شام کی ایک بستی میں ۱۹ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ ان کے والد حضرت معاویہؓ کے دامن سے وابستہ تھے۔ موسیٰ بن نصیرؒ کی شام میں ہی پرورش ہوئی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد ِخلافت میں ہوا۔
خلیفہ عبدالملک نے آغاز میں ان کو بصرہ کی زمینوں کے خراج کی وصولی کے لیے افسرِ اعلیٰ مقرر کیا۔ بعد میں ان کی انتظامی صلاحیتوں کے پیشِ نظر ان کو افریقا اور مغرب کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے افریقا کے بہت سے علاقے فتح کیے۔ افریقا کی بہادر قوم ’’بربر‘‘ نے ان کی اطاعت قبول کی۔
طارق نے اندلس میں فتح و ظفر کے جو کارنامے سرانجام دیے، اس کے محرک و مؤید بھی موسیٰ بن نصیر ہی تھے۔ ان کامیابیوں کو مزید آگے بڑھانے اور فتوحات کو استحکام بخشنے کی خاطر موسیٰ بن نصیر نے خود اٹھارہ ہزارفوج کے ساتھ اندلس جانے کا ارادہ کیا۔ اور ۹۳ھ / جون 712ء کو جزیرہ خضرا کے پاس ایک پہاڑی پر لنگرانداز ہوئے، جو بعد میں ’’جبلِ موسیٰ‘‘ کے نام سے منسوب ہوئی۔
طارق بن زیاد بارہ ہزار کی بہادر فوج کے ساتھ ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دے چکے تھے۔ ادھر موسیٰ کے ساتھ فوجیوں کو اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے کسی نئے میدان کی تلاش تھی۔ موسیٰ کا حوصلہ بھی بلند تھا۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ فتوحات کو اس قدر وسعت دیں کہ وہ اندلس سے قسطنطنیہ ہو کر شام میں داخل ہوں۔ اور یہ سارے علاقے اسلامی مملکت میں شامل ہوں۔ گویا اندلس کو خشکی کے راستے دارالخلافہ دمشق سے ملا دیں۔ اس طرح وہ اندلس کے عیسائیوں کو آسان شرائط کے ساتھ اسلامی خلافت کے زیرنگیں لانے اور یہاں ان علاقوں میں امن و امان قائم کرکے یہاں کے باشندوں کو عدل و انصاف کی برکات سے بہرہ ور کریں۔
اندلس کو دمشق سے خشکی کے راستے سے ملانے کی اس تجویز کو عملی شکل دینے کے لیے خلیفہ وقت ولید کی منظوری ضروری تھی۔ چناںچہ انھوں نے یہ تجویز دمشق بھیجی اور جواب کا انتظار کرنے لگے۔ اس عرصے میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ ان مہمات میں طارق بن زیاد مقدمۃُ الجیش کے طور پر آگے آگے اور موسیٰ فوج کو ساتھ لیے ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔ اس طرح جنوب سے شمال کی طرف پیش قدمی جاری رہی اور تقریباً شمال مشرقی اندلس کا یہ سارا علاقہ فتح ہوگیا۔
ان علاقوں میں افریقی مسلمان آباد کیے گئے۔ عبداللہ بن حنش کو پہلا گورنرمقرر کیا گیا۔ زمانۂ فتح سے مستقل اُموی حکومت کے قیام تک تقریباً چھیالیس برس کے عرصے میں وقتاً فوقتاً مختلف گورنر مقرر کیے جاتے رہے، جو کبھی دمشق سے اور کبھی افریقا سے نامزد ہو کر آتے۔ کبھی ضرورت کے لحاظ سے مقامی سطح پر ہی منتخب کرلیے جاتے۔ اس کے بعد جب بنوعباس کی حکومت قائم ہوئی تو اندلس پر عبدالرحمن الداخل اُموی نے مستقل حکومت قائم کی۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔