استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو بہ قول شخصے امریکا جمہوریت پسند قوتوںکے لیے ’’روشنی کا مینار‘‘ کہلاتا تھا، لیکن درحقیقت عملی طور پر دنیا میں آمریت کی بدترین شکل شمار ہوتا ہے۔ استعمار کاامریکی چیپٹرChapter(باب) اتنا سفاک تھا کہ اس نے اپنے ہی ملک کے متعدد صدور کے قتل سے بھی گریز نہیں کیا۔ اپنے عہد میں یہ اتنا بدلحاظ ثابت ہوا تھا کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے بھی اس کے قہر سے بچ نہیں سکتے تھے۔ وہ اپنے مخالف نکتہ ہائے نظر رکھنے والے کمزور، غریب اور چھوٹے چھوٹے ملکوں کی قومی قیادت کوتہ و تیغ کردیتا تھا۔ امریکا نے ان ملکوں کی قومی قیادت کو ہی نہ صرف دنیا سے انتہائی ظلم و ستم کے ساتھ مٹایا، بلکہ ان ملکوں کے سماجی ڈھانچوں کو بھی مسمار کر دیا۔ ترقی یافتہ سماج میں خوف و ہراس کی علامت بن گیا۔ اس کے کھاتے میں کیے گئے ظلم اور ناانصافیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔
دنیا میں استعمار کے بے شمار آپریشن چلتے رہتے تھے۔ اب تک کا آخری آپریشن افغانستان تھا، جس کا آغاز ببرک کارمل کی حکومت کے آغاز سے ہی شروع ہوگیا۔ حکومت گرانے کے لیے ’’آپریشن مجاہدین‘‘ 1979ء میں شروع ہوا۔ 1986ء میں قائم ہونے والی ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت‘ 1992ء میں افغانستان کے قصرِ صدارت تک محدود کردی گئی۔ 1996ء میں ’’آپریشن طالبان‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو اس کی موت ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔ دوسری طرف 1992ء میں ہی مجاہدین کی متوازی حکومت کھڑی کردی گئی۔ اس کی سربراہی شروع میں صبغت اللہ مجددی کو سونپی گئی، جو صرف دو ماہ تک برقرار رہ سکی۔ بعد میں معاملات پروفیسر برہان الدین ربانی کو منتقل ہوگئے۔ 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں امارتِ اسلامیہ کا ’’طالبان دور‘‘ شروع ہوگیا۔ 2002ء میں حامد کرزئی کی سربراہی میں اسلامی عبوری حکومت کا آغاز ہوا۔ اشرف غنی کی آج کی حکومت اسی کا تسلسل ہے۔
افغانستان میں تما م فوجی آپریشنز گزشتہ صدی کے اختتام تک امریکی ہدایات کے مطابق مکمل کیے جاتے تھے۔ حالیہ صدی کے آغاز میں پاکستان کی فوجی قیادت تبدیل ہوگئی۔ نئی قیادت کے رُجحانا ت میں تبدیلی محسوس کی گئی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان امریکا کے بعد روس کے دورے کا منصوبہ بنا رہے تھے، جس کی وجہ سے انھیں 16؍ اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ پاکستان شروع سے امریکی تابع داری میں کام کرتا چلا آرہا تھا، لیکن جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد رُوس کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ مشرف نے روس کا پہلا سرکاری دورہ 4؍ فروری 2003ء کو شروع کیا، جو 5 سے7 فروری تک جاری رہا۔ 33 افراد کا وفد صدر کے ہمراہ تھا۔ سی این این کے ہمراہ روسی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اس دورے سے آپ کس قسم کی توقعات لیے ہوئے ہیں؟ جنرل نے جواب میں کہا: ’’ بہت اچھی‘‘۔ جنرل نے اپنے دورے کے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات قائم کرنے اور انھیں فروغ دینے میں ’’لینڈ مارک‘‘ ثابت ہوگا۔ جنرل پرویز مشرف نے بہ طور صدر پاکستان اور آرمی چیف کے‘ روس کا پہلا دورہ کیا تھا، جسے اس کی سزا دی گئی۔ اس پر متعد د جان لیو احملے کیے گے۔ ایک حملہ 14؍ دسمبر 2003ء کو راولپنڈی میں ہوا، جس میں بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی جاسکی۔ اس کے بعد ایک اور فول پروف حملہ کیا گیا۔ 25؍ دسمبر کو جب دوبارہ حملہ کیا تو بہ یک وقت دو اٹیک کیے گئے، جو پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن تھے۔ دھما کے سے گاڑی ہوا میں اُڑی۔ زمین پر دوبارہ گرنے سے گاڑی کے تمام ٹائر تباہ ہوگئے۔ جنرل صاحب گاڑی کے صرف ریموں پر چل کر اسلام آباد پہنچ سکے۔ (عالمی نیوز ایجنسی رائٹر، فیکٹ باکس 6؍جولائی 2007 ء)
جنرل مشرف کا یہ اقدام انتہائی دلیرانہ اور جرأت مندانہ تھا۔ اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال کر خارجہ پالیسی میں شفٹ پید ا کی تھی۔ عالمی سیاست میں چین اور روس نے ابھی اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے کا عندیہ نہیں دیا تھا۔
آج حالیہ صدی کی تیسری دہائی شروع ہوچکی ہے۔ روس دوسری دہائی میں مشرقِ وسطیٰ میں عالمی استعماری طاقتوں کے دانت کھٹے کرچکا تھا۔ چین معاشی میدان میں معجزاتی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ خبر رساں ادارے را ئٹرز 13؍ جون 2021ء کی رپورٹ کے مطابق لندن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے جی سیون کے عالمی رہنماؤں کو متنبہ کیا ہے کہ: ’’وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں۔ اور یہ کہ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیں‘‘۔ کیمو نسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے انعقاد کے موقع پر یکم؍ جولائی 2021ء کو چینی صدر نے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ: ’’چین کو دھمکانے کا وقت گیا۔ کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر دیوارِ چین پر مارکر پاش پاش کردیں گے‘‘۔ (اے پی پی۔ شہنوا، یکم؍ جولائی 2021ء)
افغانستان میں چالیس سال قبل استعماری طاقتوں نے جس کھیل کی شروعات کی تھیں، آج واپسی کے ذلت آمیز سفر کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ دورانِ جنگ خطے میں آلۂ کار طبقہ پیدا کرنے کے لیے کھربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔ خطے سے لوٹتے وقت ساتھ چلنے والی قوتوں کو زیرنگیں رکھنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کا استعمال شروع کردیا ہے۔ دراصل استعمار کے پاس تعمیر کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
میڈیا کے ذریعے طالبان کے نام پر جو جتھے متعارف کرائے جارہے ہیں، بیس سال قبل انھیں کی حکومت ختم کرکے کرزئی حکومت قائم کی گئی تھی۔ آج یہ جتھے انھیں کی بساط پر نئے انداز میں دوبارہ کھیلنے والے نہیں ہیں۔ کیوںکہ خطے کی طاقتوں نے جس طرح استعماری طاقتوں کو للکارا ہے، یہ جتھے مزید کسی پراکسی وار کا حصے بنتے دکھائی نہیں دیتے۔ میڈیا کے ذریعے جو تأثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ طالبان نے اتنے ضلعوں پر قبضہ کرلیا ہے اور لوگ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں، گویا ایک تو ان ملکوں کو مستقبل میں کسی گیم کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسرا یہ تأثر عام کرنے کی سعی ہے کہ ہمارے جانے کے بعد کسی میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ ہماری جگہ لے سکے۔ گویا خطہ مستقل بداَمنی کا شکار رہے گا۔ حال آںکہ دنیا جانتی ہے کہ علاقائی طاقتوں کا مستقبل عالمی امن اور استحکام میں مضمر ہے۔ لہٰذا وہ خطے میں ا سی کے حصول کی حکمتِ عملی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی (1)
آج 12؍ مارچ 2022ء کا دن ہے اور عالمی میڈیا نے 12 گھنٹے قبل کی ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں یوکرین کے دارلحکومت کیف (kyiv) میں روسی ٹینکوں کی ایک طویل ترین قطار داخل ہوتے…
روسی اور چینی قیادت کا کڑا اِمتحان!
( مسئلۂ یوکرین) شیطان اپنی شیطنت سے کبھی باز نہیں آتا۔ اس کا علاج صرف اسے مغلوب کر کے رکھنے میں ہوتاہے۔ جنگ اگرچہ مسئلے کا حل تو نہیں ہوتی، لیکن حل تک پہنچنے کی ابتدا…
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …