نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی   (1)

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
اپریل 13, 2022 - عالمی
نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی   (1)

آج 12؍ مارچ 2022ء کا دن ہے اور عالمی میڈیا نے 12 گھنٹے قبل کی ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں یوکرین کے دارلحکومت کیف (kyiv) میں روسی ٹینکوں کی ایک طویل ترین قطار داخل ہوتے ہوئے نظر آرہی تھی۔ روسی ٹینکوں کا داخلہ یقینا ایک بڑی فتح کی علامت ہے، لیکن اس ویڈیو میں اہم ترین پہلو ٹینکوں کا داخلہ نہیں، بلکہ اس ٹینک پر لہرایا جانے والا جھنڈا ہے۔ یہ جھنڈا روس کا نہیں تھا، بلکہ سابق سو ویت یونین کا تھا، جو 1991ء کو دنیا کے نقشے سے غائب ہو گیا تھا۔ اس جھنڈے کو دیکھ کر حالیہ مضمون قارئین کی نظر کیا جارہا ہے۔

25؍ دسمبر 1991ء کو ما سکو پر آخری با ر سوویت یونین کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس کے بعد وہ دنیا کے نقشے سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس وقت سوویت یونین دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ اس کا رقبہ 22 لا کھ مربع کلو میٹر سے زیادہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے نقشے پر 15 نئے ممالک ظاہر ہوجاتے ہیں اور 72سال کے بعد اچانک دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا غائب ہونا‘ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان پیچھے چھوڑ گیا تھا۔

سوویت یونین ایک اتحاد تھا، جو اکتوبر 1917ء کے انقلاب کے بعد دنیا کے نقشے پر اُبھرا تھا۔ ’’یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک‘‘، روس کی ’’بالشویک پارٹی‘‘ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد قائم ہوا تھا۔ 1922ء میں چار جمہوریتوں یعنی روس، بیلاروس، یوکرین اور ٹراسکوکینین کے باہمی اتحادنے اسے یہ شکل دی تھی۔ آگے چل کر 15 مزید جمہوریتیں اس کا حصہ بن گئیں۔ سٹالن کے عہد ِاقتدار میں اسے مزید مستحکم بنایا گیا۔ اس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر اُبھرا تھا۔ ساتھ ہی ریاست ہائے متحدہ امریکا (USA) کے ساتھ سرد جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ تقریباً پانچ دہا ئیوں تک عالمی سیاست پر غالب رہنے کے بعد ا س میں کمزوریوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ ایسے کون سے محرکات تھے، جو اس کے عالمی سیاست سے غائب ہونے کا باعث بنے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے عوامل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: بیرونی اور اندرونی عوامل۔ اندرونی عوامل؛ ان کی شناخت ایک مطلق العنان ریاست کے طور پر بن چکی تھی۔ ملک میں ایک ہی سیاسی جماعت تھی۔ دوسری اہم بات؛ پورے نظام پر روس کی بالا دستی قائم تھی۔ ایک تأثر یہ پھیلا یا گیا کہ پورے سوویت یونین میں صرف روس کے مفادات کو ہی مقدم رکھا گیا۔ کسی دوسری ریاست کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ سرکاری زبان ایک ہی تھی جو روس کی تھی۔ کسی دوسری ریاست کی زبان کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی، نہ ہی انھیں فروغ دینے کی کوئی حکمتِ عملی وضع کی گئی تھی۔ دیگر ریاستوں میں روسی قوم پرستی بھی ایک گھمبیر مسئلہ اختیار کرچکی تھی۔ یونین کی کسی اَور ریاست کی ثقافت کوتحفظ حاصل نہیں تھا۔ ان وجوہات کے باعث دیگر ریاستوں کو متحدہ روس سے نفرت پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ تمام ریاستیں اس مطلق العنانیت سے باہر آنا چاہتی تھیں۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے دفاع اور خلا کی تسخیر پر اپنے اخراجات کا کثیر حصہ صَرف کر نا شروع کردیا تھا، جس کے باعث قومی سماجی ڈھانچہ نظر انداز ہوناشروع ہوگیا تھا۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر متأثر ہورہی تھی۔ معاشی صورتِ حال ابتر ہوتی جارہی تھی۔ لوگوں کو روز مرہ کی بنیادی ضروریات بھی پریشان کررہی تھیں، جس کے باعث عوام میں بے چینی بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔

بیرونی عوامل؛ جنھوں نے مل کر سوویت یونین کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں نمایاں اثر سوویت یونین کے ساتھ ملحقہ سرمایہ دارانہ ملکوں کی نام نہاد آزاد جمہوریتوں کا پرو پیگنڈا تھا۔ روس سے ملحقہ یورپی ریاستوں کے بارے میں یہ تأثر پھیلایا گیا تھا کہ جرمنی، فرانس اور یورپ کی دیگر ریاستیں سوویت یونین کی نسبت زیادہ خوش حال اور آزاد ہیں، جب کہ یہ ممالک ان کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران مغربی طاقتوں نے اپنے بارے میں ترقی اور خوش حالی کا بھر پور پروپیگنڈا کیا۔ اس کے نتیجے میں روسی ریاستوں کے عوام میں اپنے اتحاد کے بارے میں نفرت، بددلی، بے اعتنائی، بے وقعتی، ناراضگی، بیزاری اور ناپسندیدگی جیسے امراض پھیلائے گئے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں یورپی یونین کے بارے میں رغبت پیدا کی گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسائل اور اس سے ملتے جلتے دیگر مسائل تما م ممالک اورا قوام میں بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کا وجود پھر بھی برقرار رہتا ہے۔ آخر سوویت اتحاد 1991ء میں ہی کیوں ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کی بنیاد بننے والے محرکات جو سوویت یونین کی تحلیل کا باعث بنے، جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا گوربا چوف کے اقتدار میں آنے کے باعث ہوا تھا۔ گوبا چوف مارچ 1985ء میں روس کی کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنتے ہیں۔ ملکی پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلیاں لانے کے لیے اقدامات اُٹھاتے ہیں۔ سوویت یونین کے سماجی ڈھانچے کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے دو مقالہ جات تحریرکیے؛ ’’گلاس نوسٹ‘‘ اور ’’پریس ٹرائیکا‘‘۔

’’گلاس نوسٹ‘‘ یعنی کھلا پن؛ سیاسی کھلے پن کا اظہار۔ اس کے لیے گوربا چوف سٹالن کے اقدامات کو معروضی حالات کے تناظر میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ کتابوں پر پابندی اور خفیہ پولیس کے اقدامات، قانون کی بالادستی، قیدیوں کی رہائی اور کئی سیاسی پا رٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت وغیرہ۔

دوسرے مقالے کا نام ’’پریس ٹرائیکا‘‘ تھا۔ معاشی تشکیل نو کا نظریہ۔

 (جاری ہے )

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

روسی اور چینی قیادت کا کڑا اِمتحان!

( مسئلۂ یوکرین) شیطان اپنی شیطنت سے کبھی باز نہیں آتا۔ اس کا علاج صرف اسے مغلوب کر کے رکھنے میں ہوتاہے۔ جنگ اگرچہ مسئلے کا حل تو نہیں ہوتی، لیکن حل تک پہنچنے کی ابتدا…

مرزا محمد رمضان مارچ 18, 2022

استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ

استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …

مرزا محمد رمضان اگست 11, 2021

خوف کے بیوپاریو ں کی اصلیت

دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا نے یورپ کو اپنے تابع اور فرماں بردار رکھنے کے لیے اسے ایک نام نہاد معاہدے میں جکڑ لیا، جس کا نام ’’نیٹو‘‘ رکھا گیا۔…

مرزا محمد رمضان نومبر 14, 2022

دوحہ امن معاہدہ

امریکا اور طالبان کے درمیان ’’دوحہ امن معاہدہ‘‘ کا مکمل متن مترجم: پروفیسر ڈاکٹر شاہ زیب خان، لاہور (سال 2020ء کے آغاز میں مسئلۂ اَفغانستان …

ایڈمن ستمبر 10, 2021