استعماری معاہدات کے اقوامِ عالَم پر اثرات

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
نومبر 17, 2021 - عالمی
استعماری معاہدات کے اقوامِ عالَم پر اثرات

اسلام سے پہلے قومی زندگی قائم رکھنے اور بنی نوعِ انسان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ا قوامِ عالَم کا طریقہ تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ حلف یعنی معاہدہ کرلیا جاتا تھا۔ دونوں معاہد قومیں ایک دوسرے کی مد د گار ہوتی تھیں۔ ایک دوسرے کی طرف سے دشمنوں سے لڑتی تھیں (شیخ الہند، خطبہ صدارت، 19، 20، 21؍ نومبر 1920ء، اجلاس جمعیت علمائے ہند، دہلی)۔ معاہدہ‘ بندھ جانے کا نام ہے۔ د و شخصوں یا زیادہ افراد، انجمنوں یا اداروں کے مابین ہونے والا فیصلہ ہوتا ہے۔ معاہدہ کا مطلب ہے کہ دو فریقوں نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی پابندی اپنے لیے لازم کرلی اور دونوں متفق ہوکر اس کے پابند ہوگئے ہیں۔

گزشتہ صدی میں استعمار کی طرف سے معاہدات کا نیا ورژن ریاست ہائے متحدہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آیا۔ وہ بھی اپنے پیش رو کی طرح مکاری و عیاری کا بدترین نمونہ ثابت ہوا۔ دنیا میں جتنے بھی معاہدات کیے، وہ محض اِلتوا اور معروضی مصلحتوں کے شکار رہے۔ استعماری ممالک اپنے کیے معاہدوں پر پورا اُترنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعداصل حقیقت کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئی۔ استعمار نے سلطنتِ عثمانیہ کو معاہدۂ سیورے(Treaty of Sevre's) _جو 10؍ اگست 1920ء کو طے ہونے جارہا تھا _ میں اُلجھانے کی کوشش کی، لیکن ترکی کی جمہوری تحریک _ جو مصطفی کمال اتا ترک کی قیادت میں چل رہی تھی _ نے اسے مسترد کردیا۔ مارچ 1921ء میں مصطفی کمال اتاترک کے حامیوں نے روس کی بالشویک حکومت سے دوستی کا معاہدہ کرلیا۔ 1922ء میں یونان کو شکست دے کر اس کی افواج کو اناطولیہ یعنی حالیہ استنبول سے نکال دیا۔ اس زبردست فتح نے جنگِ عظیم اوّل کے اتحادیوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور کردیا، جس کے بعد 24؍ جولائی 1923ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر ’’لوزان‘‘ میں نئے معاہدے کو عملی شکل دی گئی، جس کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کردی گئیں۔ قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کردیا گیا۔ ( بی بی سی رپورٹ )

دوسری جنگِ عظیم کے آخر میں امریکا سمیت دنیا کے 44 ملکوں نے ’’بریٹن ووڈ‘‘ کے مقام پر دو عالمی مالیاتی ادارے قائم کیے۔ ا س معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر کے عوض ایک اونس سونا کی قیمت مقر ر کی گئی۔ اس کے مطابق امریکا ڈالر کے بدلے میں سونا دینے کا پابند ہوگیا۔ گویا سونے چاندی کے بجاے ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ ایک مشہور فرانسیسی مصنف نے گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کو ’’مغربی ممالک کا مالیاتی گناہ‘‘ قرار دیا تھا۔ 1971ء میں ویت نام کی جنگ کے نتیجے میں امریکی معیشت دبائو کا شکار ہوگئی۔ افراطِ زر تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا۔ اپریل میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں پانچ ارب امریکی ڈالر خرید لیے، جس سے ڈالر کی قدر میں بہتری اور جرمن مارک گرنا شروع ہوگیا۔ مئی میں جرمنی نے امریکی ڈالر سے علاحدگی اختیار کرلی۔ ساتھ ہی جرمن مارک کی قدر میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ امریکی ڈالر کی قدر گرنے سے دنیا کے دیگر ملکوں‘ بالخصوص فرانس اور برطانیہ نے بھی ڈالر کے عوض امریکا سے سونے کی خریداری شروع کردی۔ 12؍ اگست 1971ء تک امریکا اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ 15؍ اگست کو امریکا نے اپنے معاہدے سے راہِ فرار اختیار کرلی۔ تاریخ میں اسے ’’نکس دھچکا‘‘ کہتے ہیں۔(2013 The Battle of Bretton Woods by Benn Steil)

14؍ اگست 1941ء کو آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور ریاست ہائے متحدہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جسے انگریزی زبان بولنے والوں کا اتحاد کہا جاتا تھا۔ جسے فائیو آئیز(FIVE EYES)کا نام دیا گیا تھا۔ شروع میں اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا۔ 2013ء سے اسے دوبارہ منظرِ عام پر لایا جارہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد 2007ء میں ایک اور معاہدہ کواڈ(QUAD)وضع کیا گیا (بی بی سی رپورٹ 25؍ ستمبر 2021ء)۔ گویا چار ممالک کے درمیاں اتحا د قائم کیا گیا، جس میں ریاست ہائے متحدہ نے انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کو بھی اپنے ساتھ نتھی کرلیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ایک اَور معاہدہ اکوس(AUKUS)نام سے تشکیل دے دیا۔ یہ تین ملکی اتحاد ہے، جس میں آسٹریلیا، متحدہ بادشاہت اور ریاست ہائے متحدہ شامل ہیں۔ فرانس نے شدید ردِعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ: ’’معاہدہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘‘ کے مترادف ہے۔ (الف  (A)آسٹریلیا سے یوکے(UK)یعنی متحدہ بادشاہت یعنی انگلینڈ اور ’اوس‘ ریاست ہائے متحدہ(US)، جو 15؍ ستمبر 2021ء کو وجود میں آیا (دی گارڈین، 16؍ ستمبر 2021ء)۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا اپنے تمام معاہدات عجلت میں کرتا ہے، جب کہ چین نے گزشتہ آٹھ سال کی طویل جدوجہد سے 15؍ نومبر 2020ء کو(RCEP)تشکیل دیا تھا، جو مجموعی طور پر 26 کھرب اور 30 ارب ڈالر کی پیداوار کا خطہ ہے، جس کی کل آبادی 2 ارب 30 کروڑ کے لگ بھگ ہے(ملاحظہ کریںRCEPکی ویب سائٹ)۔ گویا یہ خطہ پیداوار اور کھپت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی منڈی بن چکاہے۔ اقوامِ متحدہ کے متوازی عالمی سیاسی و ما لیاتی ادارے روز افزوں فروغ پارہے ہیں۔ ا مریکا کے لیے یہ سب کچھ بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔ چوں کہ چین نے آسٹریلیا اور جاپان کوایشیا بحرالکاہل کے جامع تجارتی معاہدے میں شامل کرلیا ہے، امریکا اسے نیچا دکھانے کے لیے نت نئے معاہدے کرکے تأثر دینا چاہتا ہے کہ یہ سب قومیں اب میرے ساتھ کھڑی ہیں۔ وہ ایشیا پیسفک میں چین کے گرد دائرہ تنگ کرنا چاہتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’امریکا چین سے ٹیکنالوجیکل جنگ ہار چکا ہے‘‘۔ ( فنانشل ٹائمز 7؍ کتوبر 2021ء کو مستعفی ہونے والا پینٹاگون سافٹ ویئر چیف نکولس شیلان)

یہی وجہ ہے کہ دنیا محض خواہشات سے نہیں جیتی جاتی۔ معروضی حالات سے ہم آہنگ عملی جدوجہدہی اس کا سبب بنتی ہے۔ اقوامِ عالَم کا اعتماد اسے روح اور طاقت فراہم کر تاہے۔ گزشتہ صدی میں امریکا نے چھوٹے ملکوں کو تباہ و برباد کرکے اقوام کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں سے بے اعتنائی برتی اور یوں اپنا وقار مجروح کیا ہے۔ چین اور روس کو ان حالات میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم ہوگیا۔ اس پھیلاؤ سے استعمار دباؤ(stress)کا شکار ہے۔ وہ ا س سے نکلنے کے حیلے کرتا رہتا ہے، لیکن ابھی تک کوئی بھی حیلہ اور بہانہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہا۔ کیوں کہ وہ اَقوام کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدات پر پورا نہیں اُتر رہا۔ وہ جب چاہتا ہے، اپنے ہی معاہدے سے علاحدگی اختیار کرلیتا ہے۔ اس کا یہی عمل دنیا میں اسے ائسولیٹ (تنہا) کررہا ہے۔

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر

نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …

مرزا محمد رمضان نومبر 13, 2023

ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …

مرزا محمد رمضان ستمبر 10, 2021

استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ

استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …

مرزا محمد رمضان اگست 11, 2021

عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں

(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…

مرزا محمد رمضان ستمبر 11, 2022