انسانیت کی تباہی کے لیے  حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تاریخ

حافظ محمد شفیق
حافظ محمد شفیق
اگست 06, 2020 - تجزئے
انسانیت کی تباہی کے لیے  حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تاریخ

دورِ حاضر میں سرمایہ داری اور سامراجی نظام کا سب سے بڑا نمائندہ ملک امریکا ہے۔ وہاں ایک مخصوص ذہنیت کی حامل کچھ قوتیں ہیں، جو کہ اپنے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ گھناؤنے کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔ پچھلے تین سو سال سے سرمایہ داری نظام کی طرف سے جو کچھ انسانیت کے ساتھ کیا گیا، اس کا مقصد صرف اور صرف ایک مخصوص گروہ اور مافیا کو فائدہ پہنچانا اور مضبوط کرنا ہے۔ اس کام کے لیے انھوںنے مختلف طریقے اور ہتھکنڈے استعمال کیے۔ امریکا نے پوری دنیا پر اپنا تسلط و رعب قائم کرنے کے لیے، اپنے مخالفین کو شکست دینے اور اُن کو سیاسی و معاشی و سماجی طور پر کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے۔ انھیں حربوں میں سے ایک بہت بڑا حربہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ زہریلی گیسوں اور جراثیمی ہتھیاروں کے ذریعے مخالف ممالک میں بیماریاں اور وبائیں پھیلانے، فصلیں تباہ کرنے اور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا مکروہ عمل کیا گیا۔ چناںچہ امریکا نے پچھلی آٹھ دہائیوں میں ان زہریلی گیسوں اور ہتھیاروں کے ذریعے فصلوں، پھلوں، درختوں، جانوروں اور انسانیت کو تباہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا نے 1940ء کی دہائی کے آخر میں بہاما (Bahama Islands) میں خطرناک بیکٹیریا اور 1954ء میں کینیڈا میں خطرناک زِنک کیڈمیئم سلفائیڈ (zinc cadmium sulfide) کا چھڑکاؤ کیا۔ 1952ء میں کوریا پر نپلیم (napalm) اور ایجنٹ اورینج (agent orange)گرایا گیا، جس سے تئیس ہزار ایکڑ رقبے کے نباتات متأثر ہوئے۔ اور اس طرح 1960ء میں ویت نام پر لاکھوں ٹن ہربیسائیڈ (herbicides) اور ڈائیکسن (dioxin) کا چھڑکاؤ کیا، جس نے فصلوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانوں میں بھی مہلک امراض پھیلائے۔ جیسے اندرونی معذوریاں، متعدی امراض، پیدائشی نقائص اور ذہنی و نفسیاتی بیماریاں۔ امریکا نے اپنی حیاتیاتی جارحیت کے ذریعے کیوبا پر بھی بہت سی زہریلی گیسوں اور ہتھیاروں سے حملے کیے۔ 1962ء سے 1997ء تک مختلف طریقوں سے اُن کو زیر کرنے کے لیے زہریلا مواد استعمال کیا گیا۔ 
1971ء میں ’’سی آئی اے‘‘ نے کیوبا میں ایسے خطرناک جراثیم چھوڑے کہ جس سے جریانِ خون، لال بخار اور جوڑوں میں درد جیسی مہلک بیماریاں وجود میں آئیں۔ شدید نزلہ زکام اور ہڈیوں میں ناقابل برداشت درد اس کی علامات تھیں۔ 1987ء میں صرف چھ ماہ میں تیس ہزار افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے۔ یہ مرض اُن خطرناک مچھروں سے پھیلا، جو امریکا نے 1956-58ء میں جارجیا اور فلوریڈا پر حملے کے لیے پالے تھے۔ اس سے آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل طاقت ور اور مسلط حکمران طبقے انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ 
سرمایہ پرست ذہنیت کا یہ مخصوص ٹولہ اتنا گِرا ہوا ہے کہ وہ صرف اپنے مخالفین کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ اپنے ملک کی عوام اور فوج کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ چناںچہ ان کیمیائی و حیاتیاتی و زہریلی گیسوں اور مواد کا تجربہ وہ پہلے اپنے شہروں میں اور اپنے فوجیوں میں بھی کرچکے ہیں اور اپنے فوجیوں کے ذریعے سے ہی یہ مہلک امراض و وبائیں دوسرے ممالک میں منتقل کرتے ہیں۔ 1950ء میں نیویارک کے علاقے میں جہازوں اور پالتو کبوتروں کے ذریعے زنگ زدہ غلے پر آلودہ مرغیوں کے پَر گرائے گئے، تاکہ یہ اندازہ ہو کہ زنگ زدہ غلے کی وبا حیاتیاتی جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے یا نہیں۔ 1969ء میں امریکی فوج نے ’’میری لینڈ‘‘ کیمبرج کے نزدیک کھلی فضا میں زنک کیڈمیئم سلفیٹ (zinc cadmium sulfate) کے 115 تجربات کیے اور واشنگٹن نیشنل ائیرپورٹ پر بڑی تعداد میں بیکٹیریا کی تخم ریزی کی، تاکہ مسافروں کو جراثیم زدہ کرکے دشمن ممالک میں چیچک کا مرض اور دیگر بیماریاں پھیلائی جاسکیں۔ امریکی حکومت نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کئی سالوں تک عام انسانوں اور فوجیوں پر تجربات کیے ہیں۔ جن کا مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ کیمیائی و حیاتیاتی مواد، ایٹمی تابکاری، خطرناک دوائیں، اعصابی گیس اور دیگر زہریلا مواد اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لیے کس حد تک اثرانداز ہوتا ہے اور کس طرح اسے دشمن کے لیے ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ( Rogue state, By William Blum، اردو ترجمہ ’’بدمعاش امریکا‘‘، ص: 146-161) 
اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرمایہ پرست ذہنیت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح کام کرتی ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت مقدم نہیں، بلکہ اپنی بالادستی اور اپنے مفادات اہم ہیں۔ جو لوگ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل اتنی زہریلی بیماریاں و خطرناک وبائیں پیدا کرسکتے ہیں تو ان کے لیے آج کے جدید دور میں اُس سے زیادہ مہلک بیماریاں پیدا کرنا اور وبائیں پھیلانا کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ آج مقامِ افسوس ہے کہ اس سے پوری دنیا متأثر ہورہی ہے۔ کمزور ممالک کی معیشت بُری طرح تباہ ہورہی ہے۔ غربت و بھوک سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 
سامراج نے ہمیشہ وباؤں کے ذریعے پوری دنیا میں خوف اور دہشت پھیلا کر انسانیت کو نشانہ بنایا۔ اس میں میڈیا کے پروپیگنڈے اور پریس نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ پرست ذہنیت ہمیشہ اپنے مفادات حاصل کرنے کی سفاکانہ حکمت ِعملی کا جال بُنتی رہتی ہے اور مخصوص افراد اور کمپنیز کی پروڈکٹ کی فروخت کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ اس سے وابستہ مخصوص مافیاز کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ذریعے وہ کئی طرح کے مفادات و مقاصد پورے کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا اب انسانیت کو زیادہ ذمہ دارانہ اور باشعور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ احساس پیدا کرنے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک انسانیت ان درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں یرغمال بنتی رہے گی۔

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں