حضرت تمیم بن اوس الداری رضی اللہ عنہٗ مشہور صحابیٔ رسول ہیں۔ آپؓکا تعلق ملک شام کے ایک قبیلہ لخم سے تھا۔ آپؓ کی ساتویں پشت پر آپؓ کے جد ِامجد کا نام ’’الدار‘‘ تھا۔ انھیں کی طرف نسبت کی وجہ سے آپؓ کو ’’الداری‘‘ کہا جاتا ہے۔ (اصابہ183/1)
آپؓ جِنّوں کی دعوت پر اسلام کی طرف متوجہ ہوئے۔ مقام حجون پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے والے ایک جن نے آپؓ کو بتایا کہ: ’’اب جنوں کے مکر وفریب کا دور گزر گیا۔ محمد ﷺ ربّ العالمین کے رسول ہیں، آپ ان کے پاس جائیں اور مسلمان ہو جائیں‘‘۔ ایمان لانے سے پہلے حضرت تمیمؓ ایک عیسائی عالم تھے۔۹ہجری میں آپؓ دس افراد پر مشتمل اپنے خاندانی وفد کے ساتھ اپنے بھائی نعیم کو لے کر حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپؓ نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور مسلمان ہونے کے بعد تمام غزوات میں شریک رہے۔
اسلام لانے کے بعد حضرت تمیمؓ کو قرآن حکیم سے بے پناہ شغف پیدا ہوگیا اور آپؓ نے قرآنی علوم و معارف سے کامل واقفیت پیدا کی۔ محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ: ’’چار آدمیوں نے حضور ﷺ کے عہد ِمبارک میں قرآن پاک جمع کرلیا تھا: ’’اُبیٔ بن کعب، عثمان، زید اور تمیم داری رضی اللہ عنہم‘‘۔ (سیراعلام النبلاء، 48/4) ’’جمع کرنے‘‘ سے مراد غالباً لکھ کر محفوظ کرلینا ہے۔
معروف تاریخ دان ابن اثیرؒ لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت تمیم داریؓ جب شام سے مدینہ آئے تو اپنے ساتھ قندیلیں اور تیل لائے تھے۔ آپؓ نے قندیلوں کو مسجد ِنبویؐ میں لٹکایا، جن سے مسجد میں رات کو روشنی ہوجاتی تھی۔ اس سے پہلے مسجد میں روشنی نہیں ہوتی تھی ۔ یہ سنتِ حسنہ سب سے پہلے آپؓ نے ہی جاری کی۔ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو مسجد روشن دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ یہ اہتمام کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے حضرت تمیم داریؓ کا نام لیا تو حضور ﷺ نے آپؓ کو بہت دعائیں دیں اور فرمایا: ’’اگر میری کوئی بیٹی ہوتی تو میں ان سے نکاح کردیتا‘‘۔ اتفاق سے اسی وقت حضرت نوفل بن حارثؓ موجود تھے۔ انھوں نے اپنی بیوہ بیٹی ام المغیرہ کا نکاح اسی مجلس میں حضرت تمیم داریؓ سے کردیا۔ ان سے آپؓ کی صرف ایک بیٹی رُقیہ پیدا ہوئیں، جن کی وجہ سے آپؓ کی کنیت ’’ابورُقیہ‘‘ پڑی۔ آپؓ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔
حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ: ’’حضرت عمرؓ نے حضرت اُبیٔ بن کعب کو مردوں پر اور حضرت تمیم داریؓ کو عورتوں پر نمازِ تراویح کا امام مقرر کیا‘‘۔ ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ حضرت تمیم داریؓ کو کبھی عورتوں کی نماز تراویح کا امام بنا دیتے تھے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی ان کے اوقات کی مناسبت سے جمع کرکے نمازِ تراویح میں ایک امام کے پیچھے نماز کا باپردہ اہتمام عہد ِخلافتِ راشدہ میں موجود تھا ۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …