ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ دھرتی کے لوگوں نے بھی ہندوستان کی تحریکاتِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی کاوشوں سے وادیٔ مہران کے علما اور عوام کی کثیر تعداد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے مشن سے وابستہ ہوئی اور تحریکِ ریشمی رومال میں اپنا کردار ادا کیا۔ انھیں شخصیات میں ایک اہم شخصیت حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کی ہے۔
شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کا تعلق سندھ کے مشہور سادات خاندان ’’مٹیاری سادات‘‘ کی شاخ ’’جرار پوتہ‘‘ سے تھا۔ ان کے والد ِگرامی سیّد محمد رحیم شاہؒ علاقے میں قدر و منزلت کے حامل بزرگ تھے۔ ان کا پیشہ زمین داری تھا۔ شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ 18؍ مارچ 1878ء میں ٹھٹھہ کے قریب ایک شہر سجاول میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سجاول اور مٹیاری میں میاں عبدالکریمؒ سے حاصل کی۔ مٹیاری میں قرآنِ حکیم اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سجاول میں مولانا حامد اللہؒ سے دیگر کتب کی تحصیل فرمائی۔ 1888ء میں اپنے والدِ گرامی کے وصال کے بعد اپنے بہنوئی سیّد قادر ڈنہ شاہ کی کفالت میں آئے۔ انھوں نے بھی شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ سیّد قادر شاہ انتظامی صلاحیت میں ماہر تھے۔ ان کی زیر تربیت شاہ عبدالرحیمؒ کو مختلف سماجی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
اپنے علاقے کے ہاریوں کے مسائل کے حل کے لیے بھی حضرت شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی انھی خدمات کی بدولت بہت جلد ان کا شمار کراچی ضلع کے معروف زمین داروں میں ہونے لگا۔ اسی دوران تحریکِ ریشمی رومال کا آغاز ہوا۔ وہ اس تحریک میں شامل ہوگئے اور سرگرم کردار ادا کیا۔ حریت و آزادی کی اس تحریک میں امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی رہنمائی میں شاہ عبدالرحیمؒ کے ساتھ حضرت مولانا تاج محمود امروٹیؒ، مولانا عبدا للہ لغاریؒ، مولانا حامد اللہؒ، شیخ عبدالرحیمؒ اور کئی دیگر احباب نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ تحریک کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ عوام میں اس تحریک کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں انھوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
1917ء تا 1944ء سندھ میں موجود مختلف فلاحی اور تعلیمی اداروں کی رقوم کی صورت میں امداد بھی کرتے رہے، جس میں سکھر کا مسلم اخبار ’’الحق‘‘، ’’الوحید‘‘، ’’جمعیۃ الاخوان‘‘ کراچی کے علاوہ دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔
شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ 1918ء میں سجاول سینٹری کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1945ء تک اس ذمہ داری پر فائز رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ دینِ اسلام کی سربلندی اور قرآن فہمی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے، جو علاقے کے نوجوانوں اور نئی نسل میں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرے۔ اس مقصد کے لیے اپنے بڑے بھائی شاہ محمد ہاشمؒ کے نام کی نسبت سے 30؍ جون 1921ء کو سجاول شہر میں ’’مدرسہ دارالفیوض الہاشمیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 100 ایکڑ زرعی زمین اور دکانیں وقف کیں۔ جب اس ادارے کی سرپرستی کی ذمہ داری کا سوال پیدا ہوا تو اس کے لیے انھوں نے سب سے زیادہ اعتماد ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کی اہم شخصیت حضرت مولانا محمد صادق کھڈویؒ اور حضرت حکیم فتح محمد سیوہانیؒ پر کیا۔ 1923ء کو جب جمعیۃ العلما کی جانب سے فتنۂ اِرتداد کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو ’’انسدادِ ارتداد و تبلیغ فنڈ‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1920ء میں ’’تحریکِ خلافت‘‘ کے سلسلے میں دیگر عمائدینِ علاقہ کے ساتھ مل کر 19؍ مارچ 1920ء کو جامع مسجد سجاول میں عوامی اجتماع کا بھی انعقاد کیا گیا۔
1925ء میں زمین دار ایسوسی ایشن ضلع کراچی کے صدر منتخب ہوئے۔ 1931ء میں شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کی سربراہی میں ہاریوں اور زمین داروں کا ایک وفد بمبئی بھی گیا، تاکہ اس وقت کے ظالمانہ زرعی بل کے حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جاسکے۔ شاہ عبدالرحیمؒ نے عوام کی خدمت کے لیے لوکل بورڈ میں بھی خوب کردار ادا کیا۔ 1925ء تا 1929ء تحصیل لوکل بورڈ کے چیئرمین اور 1928ء تا 1930ء ضلعی بورڈ کے ممبر رہے۔ نہ صرف یہ کہ دینی تعلیم کی فراہمی میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا، بلکہ عصری تعلیم کے فروغ میں بھی پیش پیش رہے۔ اس مقصد کے لیے ضلع سکول بورڈ کے ممبر کے طور پر کردار ادا کرتے رہے۔ تحریکِ ریشمی رومال کے دوران امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب حجاز تشریف لے گئے تو اسی دورانیہ میں حج کے موقع پر ایک بار پھر سے شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کی حضرت سندھیؒ سے ملاقاتوں کا آغاز ہوا۔ حجاز شریف میں انھوں نے امامِ انقلابؒ سے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ حضرت شاہ صاحبؒ کے فلسفے سے اس قدر متأثر ہوئے کہ حضرت سندھیؒ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شاہ صاحبؒ کی کتب کو سندھی زبان میں بھی ترجمہ کرایا جانا چاہیے، تاکہ سندھ دھرتی کے نوجوان ولی اللّٰہی فکرو فلسفے سے آگاہ ہوسکیں اور اپنا سماجی کردار ادا کرسکیں۔
حضرت سندھیؒ کی وطن واپسی کے بعد 12؍ جولائی 1940ء کو ضلع کانگریس کمیٹی ٹھٹھہ کی جانب سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد بھی شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کانفرنس میں حضرت سندھیؒ نے افتتاحیہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اسی عرصے کے دوران مولانا شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فلاسفی کو سندھی زبان میں پیش کرنے کے لیے ایک ادارے کے قیام کا منصوبہ تیار کرچکے تھے۔ اس مقصد کے لیے موصوفؒ نے اپنی 1100 ایکڑ زمین بھی اس ادارے کے قیام کے لیے وقف کردی تھی۔ آج بھی یہ ادارہ ’’شاہ ولی اللہ اکیڈمی‘‘ کے نام سے حیدرآباد میں قائم ہے۔ اسی ادارے کے زیر اہتمام امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی نسبت سے ’’الولی‘‘ اور مولانا موصوفؒ کے نام کی نسبت سے ایک رسالہ ’’الرحیم‘‘ شائع ہوتا رہا۔
اس ادارے کی جانب سے شاہ صاحبؒ کی متعدد کتب کا ترجمہ سندھی زبان میں ہوچکا ہے، جس میں سب سے زیادہ نمایاں نام حضرت سندھیؒ کے ایک نام ور شاگرد مولانا غلام مصطفی قاسمیؒ کا ہے۔ وہی شاہ ولی اللہ اکیڈمی کے روحِ رواں رہے۔ اُن کی زندگی تک اس ادارے نے حضرت شاہ صاحبؒ کی کتابیں شائع کرنے کا بیڑا اُٹھائے رکھا۔ مجلس علمی ڈابھیل کے بعد شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد ہی وہ واحد ادارہ ہے، جس نے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی کتابیں شائع کی ہیں۔ بلاشبہ ولی اللّٰہی علوم و معارف اور افکار و نظریات کے فروغ میں اس اکیڈمی کا بڑا کردار ہے۔ اس کے ذریعے سے پاکستان کے نوجوانوں میں علومِ ولی اللّٰہی کا شوق اور جذبہ بیدار ہوا۔
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم سجاولیؒ نے ولی اللّٰہی اَفکار کے فروغ اور تحریکِ آزادی میں بہت قربانیاں پیش کیں اور امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکرو فلسفے کو عام کرنے کے مشن کے دوران ہی۲؍ شعبان۱۳۶۶ھ / 20؍ جون 1947ء کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین سندھ کے تاریخی قبرستان مکلی میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یا ربّ العالمین)!
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت مولانا ابو حامد محمدمیاں منصورانصاریؒ
تحریکِ ریشمی رومال کے قائدین میں ایک اہم ترین نام حضرت مولانا محمد میاں منصور انصاریؒ کا بھی ہے، جنھوں نے اس تاریخی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مولانا انصاریؒ 10؍مارچ …
مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ایک عظمت افروز واقعہ
مولانا عبیداللہ سندھیؒ ہمارے مطلع تاریخ کا ایک روشن ستارہ ہیں۔ ان عالی ہمت بزرگوں کا کردار آج کی نسلوں کے لیے مَشعَلِ راہ ہے۔ جمیل مہدی کی کتاب ’’افکار و عزائم&l…
حضرت مولاناعبداللہ لغاریؒ
امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے قریبی ساتھیوں میں ایک اہم نام حضرت مولانا عبد اللہ لغاریؒ کا بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع گھوٹکی (صوبہ سندھ) کے ایک گائوں ’’دا…
حضرت مولانا شیخ بشیر احمد لدھیانویؒ
امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے شاگردوں میں ایک نمایاں نام مولانا بشیراحمد لدھیانویؒ کا بھی ہے، جو حضرت سندھیؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بڑی ذمہ داری سے کام …