دنیائے انسانیت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے کوئی بڑا نہیں ہوا اور نہ ہوگا ۔ آپ دونوں جہانوں کے سربراہ ہیں۔ آپ ﷺپر شریعت اُتری ، کتاب اتری ۔ آپﷺکی ذاتِ اقدس رحمۃ للعالمین ہے۔ آپ ﷺنے اپنے مشن پر جماعت تیار کی۔ اور اس جماعت کے افراد میں کوئی صدیق کے مرتبے پر ہے، کوئی شہدا کے مرتبے پر ہے، اونچے مقام کے لوگ ہیں۔ آپ ﷺکی محبت میں اس قدر فنا ہیں کہ آپ ﷺکے اس دنیا سے تشریف لے جانے کی خبر تک سننے کے لئے تیار نہیں، غم سے نڈھال ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسے آدمی غصے میں فرما رہے ہیں کہ جو یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ ہر صحابی پریشان ہے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حوصلہ سے کام لیتے ہیں، جو جانشین پیغمبر ہیں۔ جن کا انتخاب جماعتِ صحابہ کر رہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: اگر اللہ کی عبادت کرتے تھے تو وہ زندہ ہیں، وہ کبھی فوت نہیں ہوسکتے۔ اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے تھے تو وہ فوت ہوگئے ہیں۔ گویا جانشین پیغمبر نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لیے دنیا میں جو سب سے بڑی شخصیت آئی تھی، اُس کے مشن کا تعارف کرایا کہ جس اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا اونچا مشن اور منصب عطا کیا، کہ انہوں نے اتنی باصلاحیت جماعت تیار کردی، جو سوسائٹی کے اندر اب پیغمبر کے پروگرام کی تکمیل کرے گی، تو اس ذاتِ خدا سے کیسے مایوس ہو جاؤ گے۔ پیغمبرؐ بھی تو اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں، اُن کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ آپ دیکھئے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو حوصلہ ہے، جو آپ کا پیغام ہے، وہ کتنا اونچا ہے اور وہ جماعت کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ آپ کی تقریر سے صحابہ مطمئن ہو رہے ہیں۔ آپ نے توجہ دلائی کہ اعلی ترین شخصیت چلی گئی، لیکن جماعت تیار کر گئی اور جماعت کو ہدف بھی دے گئی۔ اس کے مقاصد بھی بتا دیے۔ اور اس جماعت کی تربیت بھی کردی۔ آپﷺاپنے منصب کے تقاضے کے اعتبار سے اپنا کام مکمل کرچکے۔ اس لیے اب نئے پیغمبر نہیں آئیں گے ، اب تو آپ کی جماعت نے اس کام کو آگے بڑھانا ہے۔ آپ دیکھئے جماعت پُرعزم ہے۔ جماعت اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے قربانی دے رہی ہے۔ جماعت اپنے مشن کو غالب کرنے کے لیے، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے، اُس کے لیے منصوبہ بندی کر رہی تھی، پلاننگ کر رہی تھی، تیاری کر رہی تھی اور رفتہ رفتہ وہ آگے بڑھ رہی تھی۔
انبیاء کرام و اولیاء حق کے مشن کی جامعیت:
میرے عزیز دوستو! جس اعلیٰ شخصیت کا پروگرام چلایا جاتا ہے، مشن آگے بڑھایا جاتا ہے، اس شخصیت کا زندگی میں جو فیضان ہوتا، اس دنیا سے چلنے جانے کے بعد بھی اس مشن پر اس کا فیضان اور توجہ رہتی ہے۔ یہ دنیا کا قصہ مادی ہے اور اس مادی جسم کی طاقت اور قوت، اس کی کوالٹی ایک دائرے کے اندر ہے۔ روحانیت کی طاقت تو اس سے بہت قوی ہے۔ یہ مادی دائرہ تو ہماری روح کے لیے قید خانہ بنتا ہے، لیکن اس دائرے کے بغیر اس کی تربیت بھی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ضروری ہے۔ یہ جہان بھی ضروری ہے۔ یہ جسم نہ ہو، یہ انسان نہ ہو تو کس کی تربیت کرنی ہے؟ اب یہ ایک دائرے کے اندر ہے۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: جب روح جسم سے پرواز کرتی ہے تو اس کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ اعلیٰ علیین میں چلی جاتی ہے۔ وہ عالم شہادت سے عالم غیب میں چلی جاتی ہے۔ اونچے مقامات پر چلی جاتی ہے۔ اُس مقام پر جاتی ہے، جس مقام پر وہ ارواح اکٹھی ہوتی ہیں، جنھوں نے دنیا کے اندر اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے کوئی کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ ایک شخصیت یہاں تو محدود دائرہ میں ہوتی ہے اور اگر اُس مقام پر چلی جائے جہاں سارا ماحول ہی اُس مشن اور پروگرام کے تعارف کا ہے تو آپ بتائیے کہ اُس کا دائرہ وسیع ہوگا یا اُس کا دائرہ محدود؟ ایسا نہیں ہوتا کہ شخصیت کے چلے جانے کے بعد اُس شخصیت کا پیغام دنیا سے ختم ہوجائے۔ اگر جماعت سست نہ ہو تو اُس کا فیضان دنیا سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا ویسے ہی فیضان ہے جیسے دورِ صحابہ میں تھا۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صفت ’’اسم ہادی‘‘ ہے۔ جس نے اس سے تعلق قائم کیا، یہ ممکن نہیں ہے کہ اُس کو ہدایت نہ ملے۔ یہی فیضان ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر ولی، پیغمبر کی ذات میں فنا ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ’’اسم ہادی‘‘ کے فیضان کا وارث بن جاتا ہے۔ اب اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس کا اس ’’اسم ہادی‘‘ اور ’’فیضانِ نبوت‘‘ کے ساتھ جتنا گہرا تعلق بڑھتا چلا جائے گا، اللہ تبارک و تعالیٰ اُس سے اُتنا ہی اونچا کام لے گا۔
انبیا کرام و اولیاء اللہ کا مشن؛ عدل کا قیام:
انبیاء کرام دنیا میں جب تشریف لاتے ہیں تو اللہ کے پیغامبر بن کر آتے ہیں کہ ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ عدل و انصاف غالب ہونا چاہیے۔ قوموں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم جس رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اُس رب نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ میں تمہاری قوم کا ہی رب نہیں ہوں، میں تو رب العالمین اور رب الاقوام ہوں۔ میرے لیے تو ساری اقوام برابر ہیں۔ میں نے تو سب کو روٹی دینی ہے، سب کو تعلیم دینی ہے۔ میرے لیے تو سب بیمار ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، ان کو شفا دینی ہے۔ میں تو سب کی جہالت کے ختم کرنے کے لیے انبیاء کو بھیجتا ہوں۔ میں رب الاقوام ہوں۔ اب یہ پیغام انسانیت گیر ہے۔ اقوام گیر ہے، عالم گیر ہے۔ یہ اقوام کو اکٹھا کر لینا، اقوام کی اصلاح احوال کرنا، اقوام کے حقوق کا تحفظ کرنا، یہ انبیائے کرامؑ ایک ہی ذریعے سے بتاتے ہیں اور وہ ہے عدل و انصاف کہ ہر قوم کے ساتھ جب انصاف کیا جائے گا تو رب الاقوام آپ سے خوش ہوجائے گا۔ اور یہ اس کے تقاضے کو پورا کردے گا کہ اقوام کے رب نے ہمیں یہ توفیق دے دی کہ ہم انسانیت کو عدل و انصاف کے ساتھ وابستہ کریں۔
میرے عزیز دوستو! جب اقوام میں ظلم غالب آتا ہے ، اُس وقت اسوۂ پیغمبر کیا ہوتا ہے کہ ظالم طاقت کا مقابلہ کیا جائے، اس کو شکست دی جائے۔ وہ پہلے تلوار اُٹھا کر مقابلہ نہیں کرتے، بلکہ وہ جماعت کو شعور دیتے ہیں، اس کی تربیت کرتے ہیں، اسے مشن سمجھاتے ہیں۔ اور ہر ایک کی صلاحیت کے اعتبار سے اس مشن کو منتقل کرتے ہیں کہ تم نے نظامِ عدالت میں ظلم ہے تو اس کو کیسے مٹانا ہے۔ نظامِ سیاست میں ظلم ہے تو کیسے مٹانا ہے۔ نظامِ اجتماعیت ٹوٹ چکا ہے، اس کو کن اصولوں پر جوڑنا ہے۔ دنیا میں نظامِ سیاست بداَمنی پیدا کر رہا ہے، اس کو امن کی طرف کیسے لانا ہے۔ دنیا کے اندر ظالم طاقتیں غالب آکر انسانیت پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہیں، اُن سے آزادی کیسے حاصل کرنی ہے۔ یہ پیغمبر کا مشن ہے۔ جب کسی سوسائٹی پر شیطان غالب آکر اُس کو قابو کرلے، اُس سوسائٹی کی تبدیلی کا نبوی طریقہ کیا ہے؟
بس یہ بات سمجھنی ہے کہ جب کسی سوسائٹی پر شیطان قابو پالے، زندگی کے ہر شعبے پر غالب آکر اُس کو راہِ حق سے بھٹکا دے، عدل و انصاف سے دور کردے، اُس وقت میں ہم نے سوسائٹی کو اُس سے کیسے بچانا ہے اور اس کو انصاف کے ساتھ کیسے جوڑنا ہے؟
میرے عزیز دوستو! یہ پیغمبر اور نبی کا ایک پیغام ہے۔ سب سے پہلے وہ اس پیغام کو اپنی جماعت میں منتقل کرتے ہیں، اس کو تیار کرتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے سے تبدیلی لانے کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔پیغمبر ان میں شعور پیدا کرتے ہیں ، اس کو سکھاتے ہیں، حکمت سکھاتے ہیں، اب جو جماعت اس کے نتیجے میں اتنی باصلاحیت ہو، پُرعزم ہو، ترجیحات کا تعین کرسکتی ہو، صاحب ِعقل ہو، پیغمبر کے مشن کو آگے بڑھائے گی۔
حضرت رائے پوری رابعؒ کے مشن کا تاریخی تسلسل:
اس دورِ زوال میں، جس میں ہر طرف تاریکی ہے، گمراہی کا غلبہ ہے، ہدایت سے محرومی ہے، زوال کی انتہاؤں کو یہ اُمت چھو رہی ہے، اس تاریک ترین دور میں حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا ہم پر یہ بڑا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے ہمیں حق کی پہچان کروائی، صراطِ مستقیم کو واضح کیا، دین کا عقل و شعور دیا، سوسائٹی میں تبدیلی لانے کے لیے ہمت اور جرأت اور تنظیم کی طاقت پیدا کی۔ یہ کوئی عام آدمی کا کام نہیں ہوتا اور نہ ہی آسان کام ہوتا ہے۔ حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اسلاف اور اکابرین امت کے راستے پر چلتے ہوئے جس طرح دین اسلام کی انقلابی تعلیمات کو لے کر چلنے والی جماعت ِحقہ کے تسلسل کا تعارف کرایا، اس پر ہم آپؒ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور آپؒ کے اس احسانِ عظیم پر آپؒ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ آپؒ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔
حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مشن کا کمال؛ جماعت سازی:
حضرتؒ کا اس وقت کا بڑا کمال یہ تھا کہ انھوں نے دین اسلام کے عظیم مشن پر ایک جماعت پیدا کردی۔ جماعت کا پیدا کرلینا، شخصیت پرستی سے نکال دیتا ہے۔ جماعت پھر وہ کام کر رہی ہوتی ہے، جو اعلیٰ شخصیت اپنی زندگی کے دور میں سرانجام دیتی ہے۔ جماعت کا اداروں کی شکل میں آگے بڑھنا، اپنی تنظیمی مہارتوں کو بڑھانا، اپنے پروگرام کو ہمت، جرأت اور پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھانا، یہ اس وقت میں جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ شخصیت چلی بھی جائے، اُس کا افسوس یقینا ہوتا ہے، خلا بھی ہوتا ہے، لیکن جماعت محنت کرے، جدوجہد کرے، پختہ عزم پیدا کرے، اس میں کسی کا خوف نہ رہے، تو وہ جماعت اس شخصیت کے قائم مقام بن کر اُس کے مشن کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے۔
ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے لیے حضرتِ اقدس شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کون سی حکمت ِعملی دے کر گئے ہیں؟ کس نصب العین پر تعارف کرایا ہے؟ ہمیں کون سے راستے پر چلنے کی بات کی ہے؟ ہم نے اس کو لینا ہے۔ یاد رکھو! کبھی حضرت نے نہیں فرمایا کہ میں تمھیں اپنے سے جوڑنا چاہتا ہوں۔ جب بھی حضرت نے فرمایا تو یہ کہا: ’’میں تمھیں اپنے اکابر کی جماعت سے جوڑنا چاہتا ہوں۔ میں تمھیں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ، شاہ عبدالعزیز دہلویؒ، حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ، امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے جوڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپؒ نے شخصیت پرستی کی نفی کردی اور جماعت کی بات کی۔ میں نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے حضرت کا نام ایک دو دفعہ زیادہ لیا تو مجھے علاحدگی میں فرمایا کہ: ’’میرا نام نہ لیا کرو، اکابرین کا نام لیا کرو۔‘‘ آپ نے اس جانب رہنمائی کی کہ حق کا مشن شخصیت کا اپنا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس مشن کا تاریخی تسلسل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں جماعت شخصیت پرستی سے نکل کر مشن کی طرف آجاتی ہے۔ یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔
حضرت رائے پوری رابع کی اہم رہنما کلمات
حضرت نے ایک دفعہ ہمیں فرمایا تھا: ’’دیکھو! تم نے صلاحیت کا خیال رکھنا ہے۔ حق کے مسلک پر قائم رہنا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تبدیلی تلواروں سے نہیں آیا کرتی، ایٹم بموں سے نہیں آیا کرتی۔ دنیا میں تبدیلی صلاحیت اور مہارت سے آتی ہے کہ اس کی صلاحیت کتنی اونچی ہے۔ اسی طرح امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کی جماعت ہمارے لیے اپنے پروگرام اور مشن میں کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مسلک اہل حق کو تم نے نہیں چھوڑنا۔ اس جماعت نے تو برطانوی سامراج کے خلاف آزادی و حریت کی جنگ لڑنے کی حکمت ِعملی اختیار کی۔ اگر کوئی جماعت اٹھ کر یہ کہے کہ ہم نے تو سامراجی تعلیم حاصل کرکے سوسائٹی کے اندر خدمت کرنی ہے، وہ اہل حق کے مسلک پر نہیں ۔ وہ آزادی کی جدوجھد کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ آزادی کی حکمت ِعملی اختیار کرنے کے خلاف کوئی بھی رائے دی جائے، تو ہم کہیں گے کہ وہ اس مسلک سے ہٹنے کی بات کرتا ہے۔
ہم نے نام کو نہیں دیکھنا! نعرے کو نہیں دیکھنا! بلکہ مشن کی وراثت کو دیکھنا ہے۔ اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا کہ: ’’تاریخی تسلسل کی اہمیت کو سمجھنا ہے اور اسی پر تم نے قائم رہنا ہے۔‘‘ تاریخی تسلسل کے اعتبار سے کہ تمہاری جو نسبت اوپر سے نیچے تک آ رہی ہے، اُس سے تعلق میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہارے سامنے کلیئر ہونا چاہیے کہ نسبت ِپیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم، جو دین کی جامعیت کی نسبت ہے، تاریخی تسلسل رکھتی ہے، شریعت، طریقت اور سیاست ہے، اس کو تم نے نہیں چھوڑنا، اس پر قائم رہنا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ: ’’تم نے اختلاف نہیں کرنا۔‘‘ دیکھئے! ایک جماعت کے لیے یہ سنہری اصول ہیں کہ اس کا فرد باصلاحیت ہو اور وقت کے تقاضے کے مطابق صحیح فیصلہ کرسکتا ہو۔ وقت کے مطابق صحیح فیصلہ کرنا، اعلیٰ درجے کی فراست اور صلاحیت ہوتی ہے۔ اب جماعت کے افراد کے اندر اعلیٰ صلاحیت ہو، بروقت فیصلہ کرسکتے ہوں، اسی طریقے سے مسلک پر قائم رہنے سے فیوضات ملتے ہیں۔ استقامت حاصل ہوتی ہے، عقل بڑھتی ہے، شعور بڑھتا ہے۔
تاریخی تسلسل سے قرآنِ حکیم، حدیث ِپاک، فقہائے امت، علمائے ربانی سے سچا تعلق قائم ہوتا ہے۔ تاریخی تسلسل سے دین کی جامعیت آتی ہے۔ جماعت اپنے فیصلے کرنے میں اختلافات کا شکار ہوکر اپنے مشن کو نقصان نہ پہنچائے تو کامیابی ہے۔ یاد رکھو! جس جماعت کا کوئی مشن نہ رہے، یا اختلافات کا شکار ہوجائے، وہ اپنی مقتدر رہنما شخصیت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی خانقاہ اور جماعت اس وقت تک فیل نہیں ہوتی، جب تک اس کا خلیفہ اور جانشین اور بعد والی قیادت نااہل نہ ہوجائے۔ قرآنِ حکیم بیان کرتا ہے کہ ناخلف لوگوں نے انبیا کے مشن کو خراب کیا۔ یہ انبیا کتنے اونچے تھے، لیکن جب ان کے بعد والے اور ان کی اولاد ناخلف ہوگئی، انھوں نے نمازوں کو ضائع کیا، اس کی قدر نہیں کی۔ شہوات، خواہشاتِ نفسانی کے پیچھے چل پڑے۔ مفاد پرست اور خود غرض بنے۔ تباہی اور بربادی میں ڈال دیے گئے۔
حضرت رائے پوری رابعؒ کی تیار کردہ اجتماعیت کی خصوصیات:
الحمد للہ! اللہ کے فضل سے حضرتِ اقدس نے اپنی جماعت کے بہترین افراد تیار کیے ہیں، جنھوں نے ہر مشکل وقت میں اچھے فیصلے کیے۔ الحمدللہ! حضرت نےجماعت کے اندر اپنی فراست منتقل کی، جماعت کے اندر حق کا شعور پیدا کیا، جماعت کے اندر رہنمائی کی صلاحیت پیدا کی، اب جماعت کو اپنی اہلیت کا ثبوت دینا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز ہم پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے یہ پوری توقع رکھتے ہیں کہ ہم حضرت کے مشن کو کامیاب بنائیں گے۔ عزم پختہ ہو، پہاڑوں کو انسان تسخیر کرلیتا ہے۔ عزم جتنا مضبوط ہو، شیطانی طاقتوں، فرعونی طاقتوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ دنیا میں ساری کامیابی ایک ہی چیز سے حاصل ہوتی ہے اور وہ پختہ عزم ہے۔ جتنا عزم و ارادہ مستحکم اور مضبوط ہوگا، اپنے مشن پر ہر چیز کو قربان کرنے کا جذبہ موجود ہوگا، دنیا کی کوئی طاقت حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر پر قائم ہونے والی اس جماعت کو کامیابی سے نہیں روک سکتی۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حضرتِ اقدس شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے مشن کو، جو تاریخی تسلسل سے اکابرین کا مشن ہے، اس امانت کو ہمیں صحیح طریقے پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ماخذ: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اکتوبر، نومبر 2012ء
ٹیگز
مفتی عبدالمتین نعمانی
مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے صدر اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں سے ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے تایا مولانا عبدالرحیم نعمانیؒ سے مدرسہ عربیہ اسلامیہ بورے والا میں حاصل کرنے کے بعد 1982ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے دورۂ حدیث کیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی (صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان) جیسی نامور شخصیات شامل ہیں ۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ سے بیعت کی اور ان کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔ ازاں بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری قدس سرہٗ سے تعلق رکھا۔ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے آپ کو اجازت و خلافت سے مشرف فرمایا۔ اس وقت جامعہ خدیجۃ الکبریٰ، یعقوب آباد، بورے والا کے مہتمم ہیں۔ اور ساتھ ساتھ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے تحت تعلیمی و تربیتی بورڈ نظام المدارس کے صدر بھی ہیں۔ ولی اللّٰہی علوم و افکار کے فروغ کے لیے شبانہ روز مصروفِ عمل ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں ڈاکٹر محمد ناصر عبدالعزیز ( ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے السعید بلاک کی افتتاحی نشست میں کئے گئے ایک بیا…
ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )
ہمارے مربی ومحسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ از: مولانا مفتی عبدالقدیر، چشتیاں حضرتِ اقدس ؒ سے ابتدائی تعارف: …
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے)
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے) ڈاکٹر عبدالرحمن رائو (مضمون نگار حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے چھوٹے بھائی راؤ رشیداحمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جنھ…
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ از: مولانا محمد مختار حسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے اپنی پوری زندگی نوجوانوں میں اپنے بزرگ…